صحت دوستی کا حکومتی وعدہ


 حکیمانہ ....حکیم سید محمد محمود سہارنپوری
Hakimsahanpuri@gmail.com

12 جون 2024 کی سہہ پہر قومی اسمبلی میں نئی حکومت کا پہلا بجٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ 18.777 ارب کا وفاقی میزانیہ محض بجٹ نہیں یہ سالانہ قومی پروگرام ہے جس سے ملک وقوم کی تقدیر بدلنے میں مدد ملے گی ۔انہوں نے اس بات کا بھی اعا دہ کیا کہ حکومت نے تعلیم وصحت کو زیادہ اہمیت دی ان شاءاللہ دونوں شعبہ وفاقی حکومت کی ترجیحات میں شامل رہیں گے
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشمیاں ہونا
اسی بجٹ میں سیلز ٹیکس کی تلوار جس تیزی سے آنکھیں بند کرکے چلائی گئی اس پر سوائے الحفیظ، الامان کہنے کے ہمارے پاس کچھ نہیں !!ڈیری مصنوعات اور طب (حکمت) پر 18 فیصد ٹیکس کا بوجھ ڈالا گیا۔ بجٹ سازی کرنے والوں سے پوچھے کہ ڈیری مصنوعات میں دودھ بھی شامل ہے یہ غذا بچوں کی زندگی کے لیے لازمی جز کی حیثیت رکھتی ہے۔ دودھ مہنگا کرنے کا مطلب غریب اور محنت کشوں کی زندگی مزید اجیرن کر دینے کے برابر ہے وزیراعظم میاں شہبازشریف ‘ وزیر خزانہ اورنگزیب اور ڈپٹی وزیراعظم اسحق ڈار نے ایک سے زائد مرتبہ وعدہ کیا تھا کہ ادویات اور ڈیری مصنوعات پر نئے ٹیکسوں پر نظرثانی ہوگی اور ہو سکتا ہے کہ کٹوتی کی تحاریک میں ان اشیاءپر ٹیکس تجویز واپس لے لی جائے۔ 28 جون کا وہ مرحلہ بھی آن پہنچا جب قومی اسمبلی نے 24.25 کا وفاقی بجٹ منظور کرلیا جس کے بعد یکم جولائی سے نیا بجٹ خوشحالی لانے کے راستے پر چل پڑے گا. یہ کیسا عوام دوست بجٹ ہے کہ طبی ماہرین چیختے رہے، دھائی دیتے رہے مگر ان کی طرف توجہ دی گئی نہ ان کی بات سنی گئی ۔طب( حکمت )کو 18 فیصد ٹیکس کے بوجھ تلے لاد دیا گیا گویا نزلہ‘ زکام ‘ بخاراور جوہر شاندہ آئٹم یکم جولائی سے 18 فیصد مہنگی ہو جائیں گی۔ ادویات مہنگی کرنے کا مقصد مریضوں اور ان کے لواحقین کی زندگی میں مزید کانٹے پھیلانا ہے۔ کیا ایسے حالات میں زندگی کو سکون اور آرام مل سکتا ہے ؟18 فیصد ٹیکس کا آراءچلاتے ہوئے بھی حکومت نے ناانصافی کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ ایلوپیتھک (انگریزی ادویات) پر ایک فیصد ٹیکس اور ہومیوپیتھک شعبہ کے لیے بھی ایسی مہربانی ہے جبکہ سارا بوجھ شعبہ طب پر ڈال دیا گیا کیا یہ قرین انصاف ہے؟
پاکستان میں حکمت طب سستا ترین علاج اور عام آدمی کی پہنچ میں ہے۔ حکمت سے وابستہ ماہرین طب اپنی سروسز سے قومی خدمات میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں ۔ٹیکس عائد کرنے کی نئی صورت حال میں یہ شعبہ جس بوجھ تلے آگیا ہے وہاں سے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی دکھائی دے رہا ہے ۔ ہم وزیراعظم اور خزانہ سے التماس کرتے ہیں کہ وہ نئی صورت حال پر غور کریں یہ قوم کی صحت کا اولین مسئلہ ہے۔ایک طرف مہنگی دوا غریبوں ‘ محنت کشوں اور سفید پوش طبقے کو اندھیرے کا مسافر بنا رہی ہیں دوسری طرف بجلی‘ گیس اور پانی کے بلوں نے بھرکس نکال دیا ہے قومی اسمبلی کی بجٹ سیشن میں تقریر کرتے ہوئے جھنگ کے رکن قومی اسمبلی شیخ وقاص نے وزیرخزانہ سے پوچھا کہ یہ کون سا انصاف اور عدل کا پیمانہ ہے کہ 200 یونٹ استعمال کرنے والے صارف کا بل 4800 روپے آئے اور 201 یونٹ کا بل 5000 اضافہ 9800ہو یہ ناانصافی نہیں اسے ظلم کہتے ہیں اور یاد رکھیں ظلم کرنے والے سے انسان نہیں رب کائنات انصاف کرتے ہیں۔ راولپنڈی کے ایک کمرشل پلازے میں چوکیدار کی داستان نے دل ہلا کر رکھ دیا اس کا کہنا تھا کہ صاحب جی میری تنخواہ 22 ہزار روپے ہے جبکہ بل 24 ہزار 800 روپے کا آیا ہے۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رورہا تھا کہ بجلی کا بل کہاں سے ادا کروں اور گھر کا بجٹ کہاں سے بنائے؟ یہ مسئلہ صرف ایک چوکیدار کا نہیں ہر شخص پریشان ہے ہم نے اپنی زندگی میں یہ پہلی بار ایسا دیکھا ہے کہ لوگ قرض لے کر بل ادا کررہے ہیں۔ خدارا ہوش کریں لو گوں کو سہولتیں دیں ایسانہ ہو عوامی غضب سب کچھ بہا کر لے جائے!!
....یہ درست ہے کہ ایک طرف مہنگائی نے غریب عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے تو دوسری طرف بے روزگاری نوجوانوں کا مقدر بنی دکھائی دیتی ہے لوگ چیخ رہے ہیں چلا رہے ہیں خود ساختہ گرانی پر لیکن ان کی صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی ہے اور یہ رو دھو کر چیخ چلا کر کسی ایسے مسیحا کے منتظر ہیں جو ان کی دل جوئی کرے جو ان کی داد رسی کرے جو ان کا نوحہ سنے اور پرسان حال ہو ۔یہ غریب اشیائ خوردونوش کی قیمتیں دیکھ سن کر توبہ توبہ کررہے ہیں دال روٹی بھی ان کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہے اور یہ بے سدھ لاشہ بنے بیٹھے ہیں کھانے پینے کی روزمرہ کی اشیائ ان غریب و بے نوا عوام کی قوت خرید سے باہر ہونے لگی ہیں دکاندار منہ مانگے دام دھڑا دھڑ وصول کر رہے ہیں نہ انتظامیہ کی گرفت اور نہ پرائس کنٹرول کمیٹی کی حرکت.... عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کی ضرورت ہے حکومت مہنگائی پر قابو پانے کے لئے ٹھوس اقدام کرے یہی وقت کی ضرورت ہے اور روش گار کے دروازے کھولے یہی وقت کا تقاضا ہے لوگوں کی جان مال کی حفاظت حکومت کی زمہ داری ہے بے روز گاری کا خاتمہ حکومت کا فرض ہے مہنگائی کے طوفان کو روکنا حکومت کا فرض ہے آج ہم مختلف مسائل میں گھرے ہوئے ہیں معاشی مسئلہ درد سر بنا ہوا ہے اور سیاسی عدم استحکام اور رواداری ہے ملک کی ترقی کے لئے سیاسی رواداری اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے سیاسی جماعتوں کو چائیے کہ وہ سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کریں تاکہ ملک وقوم میں ترقی خوشحالی اور استحکام آئے یہ وقت کی ضرورت اور آواز ہے ملک کو مسائل سے نکالنا ہے تو سیاسی جماعتوں کو سیاسی رواداری کا مظاہرہ کرنا چائیے یہی وقت کا تقاضا ہے منہگائی غربت روٹی کپڑا اور مکان ضرورت ہے غریب عوام کی آئیے ذرا سوچیں اور غریب کی دل جوئی کریں اور اس کو مسائل کی دلدل سے نکالیں یہ ہی وی مخلص لوگ ہیں جو آپ کو زمام اقتدار تک پہنچاتے ہیں جمہوری دور میں جمہور کا رونا دھونا لمحہ فکریہ ہے

ای پیپر دی نیشن