پیرس کی ڈائری
محمود بھٹی
ہماری ایک عدد نیشنل کرکٹ اکیڈمی ہے جس کا کام بظاہر کھلاڑیوں کی تربیت ہے، لیکن میں نے آج تک اس اکیڈمی میں کسی کھلاڑی کے ٹیلنٹ کو نکھار کر بطور اثاثہ محفوظ کرتے ہوئے نہیں دیکھا، ہمارے اکثر میڑک فیل یا پاس کھلاڑی ایک یا چند میچ جتوا کر کامیابی کے برج خلیفہ پر جا بیٹھتے ہیں ،میڈیم فاسٹ جادوگر باﺅلر محمد آصف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بال اسکے اشاروں پر گھومتا تھا ، محمد آصف جس طرح بیٹرز کو کلین بولڈ اور ایل بی ڈبلیو کرواکر آﺅٹ کیا کرتا وہ ناقابل بیان ہے،اس فن میں انتہائی مہارت اور کنٹرول درکار ہوتا ہے جو آصف کے پاس تھا،،محمد آصف کے مسائل کا اگر نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں حل نہیں ہوسکا تو پھر انتظامیہ کو بھی سزا دی جانی چاہیئے تھی، افسوس ہم نے محمد آصف جیسا ہیرا کھودیا، محمد عامرجیسا ٹیلنٹ بھی اپنی زندگی کی قیمتی پانچ سال کھو بیٹھا کہ اکیڈمی میں کنٹرول اور تربیت نام کو بھی نہیں ہے ،جس کا جو دل چاہے وہ کرسکتا ہے،سلمان بٹ، شرجیل خان جیسے متعدد کھلاڑیوں کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرکے انھیں ملک کیلے اثاثہ بنانا کس کی ذمہ داری تھی؟
جہاں تک گروپ بندی کا معاملہ ہے سب جانتے ہیں کہ پہلی بار آسٹریلیا کی نائٹ کرکٹ کی روشنیوں کی چمک سے متاثر ہو کرکس کس نے کیا کیا کیا تھا؟ کس نے اپنے مستقبل کی خاطر ماجد خان کو ٹیم سے نکالا؟ کرکٹ کی ماں اور باپ پکارے جانیوالے عظیم ترین کھلاڑی جاوید میاں داد کو کس نے 1994 میں رلایا اورریٹائر ہونے پر مجبور کیا ، یہ الگ بحث ہے کہ جو گروپنگ کے عمل میں شریک تھے انکے ساتھ بھی بالکل ویسا ہی ہوا جو انھوں نے دوسروں کیساتھ کیا ،وسیم اکرم اور وقار یونس کی رسہ کشی کا کیا نتیجہ نکلا ؟ ان دونوں نے کپتانی پر قبضہ کرکے بھی کونسی عظمت پالی؟30 سال گزر گئے ہیں لیکن ہماری کرکٹ میں کچھ بھی نہیں بدلا،دھڑے بندیاں مسلسل کرکٹ کو دیمک کی طرح کھائے جارہی ہیں،ٹی 20 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں روہت شرما نے شاندار پرفارمنس سے ٹیم کو فتح دلوائی جبکہ روہت شرما نے فائنل میں ٹیم کو جیت سے ہمکنار کیا،کپتانی چھن جانے کے بعد کبھی ویرات کوہلی نے روہت شرما کیخلاف کوئی عناد نہیں رکھا لیکن ہمارے یہاں ایسی کوئی روایت نہیں،
سب جانتے ہیں کہ گروپوں کی بدمعاشی ختم کرنے کیلئے کبھی بھی کوئی سنجیدہ عملی کوشش نہیں کی گئی ، گروپ بندی کے ہٹ مین کی جانب سے مطالبہ ہوا کرتا ہے کہ فلاں کپتانی سےاستعفیٰ دیدے ورنہ ذلیل کرکے ہٹا وا دیں گے ،اس یونیورسل دھمکی کی بازگشت آج بھی سنائی دے رہی ہے، دوسری جانب سنٹرل کنٹریکٹ ختم کرکے تنزلی کردیں گے جیسی ضمنی دھمکیوں کا نزول بھی جاری و ساری ہے،
جاوید میاں داد کے بعد سے لیکر آج تک قومی کرکٹ ٹیم میں گروپ بندیوں اور کپتان بننے کی کشمکش کو جنگ میں بدلنے کی اجازت کس نے دی؟وسیم وقار کی لڑائی ، شاہد آفریدی اور معین خان کا کپتان بننا کیا یہ سب فطری معاملات تھے، انتظامیہ کا اس میں کیا کردار تھا؟اسکی کیا ذمہ داری تھی ؟ شاہین آفریدی اور بابر اعظم کی کپتانی کی جنگ نے پاکستانی ٹیم کی جو جگ ہنسائی کروائی کیا اس کے صرف وہی ذمہ دار ہیں ؟ کیا اس میں انتظامیہ کا کوئی قصور نہیں ہے؟ کونسی ایسی پالیسیاں ہیں جن کی بدولت ہمارے مڈل کلاس کھلاڑی اتنے طاقتور بن جاتے ہیں کہ انھیں ملکی عزت کا بھی خیال نہیں رہتا ہے،
پاکستانی ٹیم اور کھلاڑیوں کی کارکردگی اور عالمی رینکنگ بہتر ہورہی تھی ، تاریخ میں پہلی بار اوپنرز کی کارکردگی میں باقاعدگی دیکھی گئی ، اگرچہ اس میں مزید بہتری کی گنجائش تھی لیکن ہماری ٹیم کو بد نظروں کی نظر کھاگئی،پاکستانی ٹیم کو شاید کوئی بددعا ہے کہ جب بھی اسکا کوئی کھلاڑی اپنی کارکردگی کی بنا پر نمایاں ہونا شروع ہوتا ہے تو اسکی ٹانگیں کھینچنے والے متحرک ہوجاتے ہیں،ایک کھلاڑی یہ سوچتا ہے کہ دوسرا نکلے گا تو اسکی باری آئیگی، کھلی سازشیں ہوتی رہتی ہیں لیکن انتظامیہ کے کبوتر آنکھیں بند کئے رکھتے ہیں،پاکستانی کرکٹ میں ایسی مثالیں بہت کم ہیں کہ کوئی کھلاڑی عزت سے ریٹائر ہوا ہو، پتہ نہیں یہ سلسلہ کب تھمے گا؟ پسند ناپسند اورسازشوں کے نتیجے میں ٹیم میں گرینڈ سرجری کا عمل شروع ہوچکا ہے، نئے کھلاڑی سامنے آئیں گے ،جلد یہ بھی پتہ چل جائیگا کہ نیشنل کرکٹ اکیڈمی نے عالمی معیار کے کتنے متبادل کھلاڑی پیدا کئے؟ یہاں سوال یہ ہے کہ موجودہ گروپ بندی کے ذمہ دار صرف بابر اعظم ہی تھے؟ ٹیم نے پرفارم نہیں کیا تو اس کے ذمہ دار بھی بابر اعظم تھے؟کیا محض ردعمل دکھانے کیلئے گھن کیساتھ گھیہوں کو بھی پیس دیا جائے گا؟ کیا صرف ٹیم کو ہی سرجری کی ضرورت ہے یا پھر انتظامیہ کو بھی کٹہرے میں لا کر جواب دہی کا پابند کیا جائیگا؟