ویلے دی نماز تے کویلے دیاں ٹکراں

 گلوبل ویلج                

مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
چھبیس جون کو امریکا کے ایوان نمائندگان نے 8 فروری 2024 کو پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں ووٹنگ کے بعد ہیر پھیر کے دعوو¿ں کی غیر جانبدار تحقیقات کے حق میں قرارداد کو سات کے مقابلے میں 368 کی بھاری اکثریت سے منظور کرتے ہوئے جنوبی ایشیا کے ملک کے جمہوری عمل میں عوام کی شمولیت پر زور دیا تھا۔
قرار داد میں پاکستان کے لوگوں کو ملک کے جمہوری عمل میں حصہ لینے کی کوشش کو دبانے کی کوششوں کی مذمت کی گئی، ان کوششوں میں ہراساں کرنا، دھمکانا، تشدد، بلا جواز حراست، انٹرنیٹ اور مواصلاتی ذرائع تک رسائی میں پابندیوں یا ان کے انسانی، شہری اور سیاسی حقوق کی خلاف ورزی شامل ہے۔
ایسی قرارداد کا امریکہ کے ایوان زیریں میں منظور ہو جانا تحریک انصاف کی بڑی کامیابی تھی اس کے لیے تحریک انصاف کی طرف سے لابنگ بھی کی گئی حکومت پاکستان کی طرف سے بھی کوئی کمی نہیں چھوڑی گئی۔ پاکستانی سفیر اس دوران بڑے فعال رہے۔ بہرحال بھاری اکثریت سے قرارداد منظور ہو گئی۔اس قرارداد کی منظوری کے بعد ہماری حکومت کے ہاتھوں کے طوطے اڑنے لگے۔حواس باختہ ہو گئی۔خواجہ آصف کو سامنے لایا گیا جنہوں نے ابھی دو ڈھائی سال پہلے قوم کو درس دیا تھا کہ پاکستان کی معیشت وینٹیلیٹر پر ہے امریکہ اسے وینٹیلیٹر سے اتار سکتا ہے۔ان کی طرف سے ہماری خود مختاری کا راگ الاپا گیا اور امریکہ کو طعنے دیے گئے کہ آپ نے اب تک کتنی حکومتوں کے تخت الٹ دیے ہیں۔فلسطین میں کیا ہو رہا ہے۔۔۔امریکہ کی طرف سے تختے تو پہلے بھی الٹے جاتے تھے فلسطین میں بھی سب کچھ ہوتا تھا لیکن خواجہ آصف کو یہ سارا کچھ باور کروانے کی ضرورت اس وقت محسوس ہوئی جب امریکی ایوان نمائندگان سے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کی قرارداد منظور ہوئی۔
ان لوگوں کی عقل سلیم کا اندازہ کریں کہ بوکھلاہٹ میں بیان بازی کے بعد قومی اسمبلی میں قرارداد لے آئے جس کی متفقہ منظوری نہ ہو سکی۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ایوان، امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد پر تشویش کا اظہار کرتا ہے، ایوان فروری 2024 کے انتخابات میں پاکستانیوں کے ووٹ کے استعمال کے بارے میں ریمارکس پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ امریکی قرارداد مکمل طور پر حقائق پر مبنی نہیں ہے، پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے جو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کرے گا۔
آج مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی اور ان کی اتحادی جماعتیں دوبارہ سے اقتدار میں ہیں۔ اپریل 2022 میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد یہ لوگ پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے تھے۔پاکستان میں عمومی سوچ پائی جاتی ہے کہ پاکستان کے بڑے بڑے فیصلے آرمی چیف کی تقرری، حکومت کا بن جانا ٹوٹ جانا امریکہ کی مرضی اور منشا کے بغیر نہیں ہو سکتے۔امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد آتی ہے تو اس کے سامنے ہماری حکومت بھی قرارداد لے آتی ہے۔
امریکہ تو کسی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے اس حد تک چلا جاتا ہے کہ اپنے لوگ مروا ڈالتا ہے جیسا کہ جنرل ضیاءالحق کے طیارے کے کریش میں امریکی سفیر آرنلڈ لوئس رافیل اورامریکی بریگیڈیئر جنرل جنرل ہربرٹ ایم واسم بھی مارے گئے تھے۔واسم پاکستان میں پینٹاگان کے نمائندے کے طور پر ان دنوں موجود تھے۔
پاکستان میں انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے امریکی ایوان نمائندگان کی طرف سے قرارداد منظور کی گئی جس کا امریکی حکومت کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے بلکہ اس میں تو امریکی حکومت سے سفارش کی گئی ہے کہ پاکستان سے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے حوالے سے تحقیقات کا مطالبہ کیا جائے لیکن ہمارے ہاں منظور کی جانے والی قرارداد امریکہ کے خلاف ہے۔خواجہ آصف کی طرف سے اور اس قرارداد کے ضمن میں جو طعن و تشنیع کی گئی ہے وہ امریکہ کی گئی۔یہی ہماری حکومت کی حماقت ہے کہ خواہمخواہ امریکہ کو اپنے خلاف اشتعال دلوا دیا گیا ہے۔
امریکہ کے خلاف ایسی قرارداد لانے کا مشورہ ان لوگوں کو کس نے دیا جو ان کے گلے پڑتی ہوئی نظر آرہی ہے۔مشورہ دینے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے فیصل واوڈا کو اٹھایا پہلے ججوں کے خلاف کھڑا کر دیا پھر اسے معافی مانگنے کی ترغیب دی گئی۔فیصل واوڈا کبھی عمران خان کے بہت ہی قریب ہوا کرتے تھے عمران خان کا ان پر اتنا زیادہ اعتماد تھا کہ عمران خان کراچی جاتے ان کو اپنی میزبانی کا شرف بخشتے تھے یہ نوجوان تھے، انرجیٹک تھے، ان کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دےکر کامیابی کی راہ ہموار کی گئی۔ان کی یہ سیٹ سٹیک پر لگ گئی جب ان کی دوہری شہریت سامنے آئی اور انہوں نے عدالت کے سامنے اعتراف کر لیا کہ میں نے غلط بیانی کی تھی۔انہوں نے ایم این اے کی سیٹ چھوڑ دی۔اس کے بعد عمران خان نے ان کو سینٹر منتخب کروا دیا۔اتنا بڑا سیاسی احسان کم ہی کسی پر کیا گیا ہوگا۔
پھر فیصل واوڈا کو استعمال کرنے والے لوگ سامنے آگئے انہوں نے ان کو اس موقع پر جب عمران خان لانگ مارچ کی تیاری کرتے ہوئے لاہور سے نکلا ہی چاہتے تھے کہ فیصل واوڈا نے پریس کانفرنس کر دی تحریک انصاف کی لیڈر شپ پر خوب برسے۔شاید ان کو نگران وزیراعظم بننے کا بھی خواب دکھایا گیا تھا بہرحال ان کو سینٹر منتخب کروا دیا گیا اور جب جب ان کی ضرورت پڑتی رہی یہ استعمال ہوتے رہے۔ گزشتہ دنوں دو ججوں کے خلاف ان کی طرف سے جو کچھ کہا گیا وہ بدترین توہین عدالت تھی۔انہوں نے ججوں کے نام لے کر ان کی کردار کشی کی ان کو دھمکیاں دی اور ان کے خلاف آرٹیکل چھ لگانے کی بھی بات کی گئی۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے ان کو اور ایم کے ایم کے لیڈر مصطفی کمال کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا۔مصطفی کمال نے فوری طور پر معافی مانگ لی لیکن فیصل واوڈا کی طرف سے اشتعال میں آکر میڈیا ٹاک میں کہا گیا کہ وہ کسی صورت معافی نہیں مانگیں گے ،گردن کٹوا لیں گے، اپنے موقف پر قائم رہیں گے۔جنہوں نے ہماری پگڑی اچھالی ہے ان کی پگڑیوں کے ساتھ فٹبال کھیلیں گے پھر یہ دیکھا گیا کہ فیصل واوڈا نے عدالت میں معافی مانگتے ہوئے کچھ پرانی آیات کے حوالے بھی دیے اور اس کے بعد ان کی طرف سے سپریم کورٹ میں سجدہ بھی کیا گیا۔جب یہ اتنے بہادر اور دلیر تھے تو معافی؟
 عمران خان کے مخالفین کی طرف سے ان کے بابا فریدؒ شکر گنج کے مزار پر احترام سے جھکنے کو سجدہ قرار دے کر تنقید کی گئی تھی۔عمران خان بابا فرید شکر گنج ؒ کے مزار پر گئے وہاں مسجد بھی ہے اور بابا فرید شکر گنج ؒ کا جسد خاکی بھی ہے وہاں پہ عمران خان نے سیڑھیوں پرجھکے تھے۔یہاں پہ فیصل واوڈا سجدہ ریز ہوئے وہاں پہ نہ مزار ہے نہ مسجد ہے تو یہ کس کے سامنے جھکے، کس کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ اسے کہتے ہیں ”ویلے دی نماز تے کویلے دیاں ٹکڑاں“۔یہ اتنے پھرتیلے بن کر بڑھکیں نہ مارتے تو آج ان کو سجدہ سہو کرنا پڑتا۔
آج بھی ان کو مشورہ ہے کہ ادھر ادھر کی درگاہوں، بارگاہوں، چوکھٹوں پر جھکنے کی بجائے اللہ کے حضور جھکیں، وہ سجدہ کریں جو ایسے سجدوں سے بچا لیتا ہے۔
ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے 
 ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

ای پیپر دی نیشن