بیگم کلثوم نواز شریف کی یادیں

Jul 02, 2024

طلعت عباس خان


ٹی ٹاک ....طلعت عباس خان ایڈووکیٹ 
takhan_column@hotmail.com 


وزیراعلیٰ مریم نواز حکومت کے پہلے سو دن پر کچھ لکھنے بیٹھا ہی تھا کہ ڈور بل نے توجہ اچک لی۔ دیکھا تو باہر بابا کرمو تھے۔ بٹھایا، مہمان نوازی کے بعد سوال کیا کہ آپ کچھ کھوئے کھوئے ہیں؟ پوچھا خیرت ہے بتایا کہ پنجاب حکومت پر کچھ لکھا چا رہا تھا ۔ بابا کرمو نے کہا کہ اگرکچھ لکھنا ہے تو مریم نواز شریف کی والدہ ( کلثوم نواز ) پر لکھو ۔ ان کولوگ بھولتے جا رہے ہیں۔ کہا آج مریم نواز جس مقام پر ہیں اس میں جتنا ہاتھ ان کے والد محترم میاں نواز شریف کا ہے اتنا ہی کریڈٹ کلثوم نواز مرحومہ کا ہے بلکہ تھوڑا زیادہ ہے۔ پوچھا کبھی آپ ان سے ملے ہو کہا ملا تو نہیں مجھے راولپنڈی میں انہیں ایک ریلی کی قیادت کرتے ہوئے چودھری تنویر سابق سینٹرکے ہمراہ دیکھا اور بولتے سنا ضرور تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب ن لیگ پر مشکل وقت تھا۔ کہا مرحومہ کی بڑی مدبر شخصیت تھیں ، پیدائشی لیڈر تھیں جب میاں نواز شریف میدان میں ہوتے تو گھریلو خاتون کا رول ادا کرتیں اور جب قید میں ہوتے تو وہ سڑکوں پر جلوس کی قیادت کرتیں ۔انکی ایک بیٹی مریم نواز اور دو بیٹے حسن نواز اور حسین نواز ہیں۔ مریم بڑی بیٹی ہونے کے ناطے سے زیادہ لاڈلی تھی ۔ادھر بیٹی بھی خدادا صلاحتیوں کی مالکہ ہیں جس نے ماں کی کمی کو نہ صرف پورا کیا بلکہ والدین اور فیملی کیلیے باعث فخر ثابت ہوئی اور آج صوبہ پنجاب کی پہلی وزیر اعلیٰ خاتون بن چکی ہیں۔ اس کا کریڈٹ مریم نواز شریف اور اس کے والدین کو جاتا ہے جنھوں نے انہیں سیاسی مشکلات میں سیاست کے میدان میں اتارا پھر مقدمات کا سامناکیا۔جیلییں کاٹیں ، میاں نوازشریف سے تو سبھی واقف ہیں لیکن بیگم کلثوم نواز شریف سے واقف ضرور ہیں مگر کم کم۔ بابا کرمو سے پوچھا کچھ مرحومہ بیگم کلثوم نواز شریف کے بارے میں بتائیں۔ بولے !! بیگم کلثوم نواز شریف کا زمانہ طالب علمی میں نام کلثوم بٹ تھا۔ تعلق گوجرانوالہ کی مشہور بٹ کشمیری فیملی سے ہے۔ برصغیر کے مشہور گاما پہلوان انکے نانا تھے۔پہلوانوں میں عام آدمی کے مقابلے میں صبر برداشت بہت زیادہ ہوتا ہے۔پہلوان کا ایک قصہ سنایا کہ ایک پہلوان صاحب محلے کی شاپ سے گوشت لینے گئے وہاں دوکاندار سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا جس پر دوکاندار نے ترازو کا باٹ اٹھا کر پہلوان کے سر پر دے مارا۔ سر سے خون بہنا شروع ہو گیا اگر یہ پہلوان چائتے تو دوکان دار کو وہی اپنی طاقت سے دبوچ کر ختم کر سکتے تھے مگر پہلوان نے کپڑا سر پر رکھا اور چل دئیے۔ سب نے ایسا کرنے پر اس پہلوان کو داد دی۔پہلوان نے کہا قدرت نے مجھے اتنی طاقت دے رکھی تھی کہ اس کو جان سے مار سکتا تھا مگر ایسا کرتا تو قدرت کا ناشکرا ہوتا۔یہ طاقت قدرت نے مجھے پہلوان سے لڑنے کی دے رکھی ہے نہ کہ ہر بندے کو مارنے کیلئے !! پہلوانی میں صبر اور برداشت کا سبق ہی تو پہلوانی میں سکھایا جاتا ہے۔کلثوم بٹ کا تعلق پہلوانوں کے خاندان سے تھا لہذا برداشت کی یہ خوبی انہیں ورثے میں ملی تھی ہر مشکل گھڑی میں صبر اور برداشت کو ہاتھ سے نہ جانے دیتی ۔وہ تعلیمی شعبہ میں پی ایچ ڈی (ڈاکٹر اف فیلوسفی ) تھیں.۔ 29مارچ 1948کو پیدا اور 11ستمبر 2018 کو لندن میں اس جان فانی سے کوچ کر گئیں جب تک حیات رہی سیاست میں بھرپور حصہ لیتی رہیں۔ رکن قومی اسمبلی ، 1999سے 2002تک پاکستان مسلم لیگ کی صدر اور تین بار 1990، 1993, 1997تا 1999اور 2013 تا 2017 خاتون اول پاکستان رہیں۔ جب فیملی اور پارٹی پر مشکل وقت آیا تو پارٹی کی قیادت کی اور ریلیوں سے خطاب کرتی رہیں ، حکومت کے خلاف تحریک چلانے میں پیش پیش رہیں۔ حلقہاین اے 120 سے الیکشن جیتا لیکن خرابی صحت کی وجہ سے اسمبلی سے حلف نہ لیا اور کینسر کے علاج کے لیے دونوں بیٹوں حسین نواز اور حسن نواز کے پاس لندن پہنچی۔ جب طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو احتساب عدالت نے میاں نوازشریف اور بیٹی مریم نواز شریف کو لندن جانے کی اجازت دے دی۔ ابھی سفر میں تھے کہ کلثوم نواز شریف کر دل کا دورہ پڑا۔ جب شوہر اور بیٹی اسپتال پہنچے تو وینٹیلیٹر پر ( آئی سی یو میں ) تھیں۔ انہیں زندہ دیکھ سکے مگر بات نہ کر سکے۔ یہ حالت دیکھ کر میاں نوازشریف نے سب سے صحت یابی کیلئے دعا کی اپیل کی۔ جس پر سابق صدر آصف علی زرداری اور چیرمین بلاول بھٹو زرداری نے نیک خواہشات کا فوری اظہار کیا اپنی جماعت کے ور کروں سے جلد صحت یابی اور عمر درازی کی دعا کرنے کو کہا ۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی اپنے ٹیوٹر پر دعایہ الفاظ میں کہا کہ اللہ انہیں صحت عطا کرے آمین۔ ملک سے ہر درد دل رکھنے والوں نے دعائیں دیں مگر چند روز کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔بیگم کلثوم نواز کا خاندان کشمیر سے تعلق رکھتا ہے۔لاہور میں پیدا ہوئی اور وہیں اب تدفین ہیں۔ آج بھی اچھے نام سے لوگ انہیں یاد کرتے ہیں۔ مریم نوازشریف نے پہلی خاتون وزیراعلی بن کر ماں کی قبر پر حاضری دی۔ والد میاں نوازشریف نے ہمیشہ بیٹی کی انگلی پکڑ کر سیاست میں لائے۔ مریم نواز شریف نے اپنے والدین کا سر فخر سے بلند رکھا ہوا ہے۔یہ سچ ہے کہ پنجاب کی وزیراعلیٰ کسی نے انہیں دی نہیں بلکہ اپنی محنت سے پارٹی کے لے کام کرتے ہوئے یہاں تک پہنچی ۔ یہ اس کی اپنے محنت، والدین کی عوام کی دعائیں کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزیر اعلیٰ ہیں۔ اپنے سو دن وزارت اعلیٰ میں کام کرنے کا جو اعلان کر چکی ہیں اگر ان پر عمل ہو جاتا ہے تو پھر محترمہ نے نہ صرف اپنا اور ن لیگ کا روشن مسقبل کر دیا ہے بلکہ اپنے لیے ن لیگ کے لیے مزید راستے ہموار کر لیں گی۔ میاں نواز شریف نے اس بار وزارت عظمی نہ لے کر بڑے پن کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ ایسا کر کے مسلم لیگ کو مضبوط اور سچے مسلم لیگی ساتھیوں اور فیملی کو اکھٹا کیا ہے، مریم نواز شریف خوش قسمت ہیں جس کے والد نہ صرف اسی صوبے کے وزیر اعلیٰ اور تین بار وزیراعظم کا تجربہ رکھتے ہیں۔ مریم نواز نے ان کے تجربات کا بھرپور فائدہ آٹھا رہی ہے ۔اگر کہا جائے کہ قوم کو مریم نوازشریف کی شکل میں متحرک سیاسی ورکر اور سیاسی لیڈر ملا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جو مشکل حالات میں پارٹی کے ساتھ رہے اب سکھ میں انہیں بھی ساتھ رکھیں اور خیال رکھیں۔بیگم کلثوم نواز شریف کے نام کا ویلفیئر کا ادارہ بنائیں ۔ دعا ہے بیگم کلثوم نواز شریف کو اللہ جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین

مزیدخبریں