بہت سی روایات ملتی ہیں کہ اسلام میں دوسرے کیلئے تعظیماً کھڑے ہونے کو ناپسند کیا گیا ہے۔ سادگی اس حد تک کہ اپنے مصاحبوں میں بیٹھے حضورصلعم کو پہچان لینا ممکن نہ ہوتا تھا۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام کو حضورصلعم اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھے لیکن وہ انکی آمد پر کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حضورصلعم اس بات کو پسند نہیں فرماتے۔
تمام پیغمبروں کا یہی شیوہ تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے غدار ساتھی یہودا کو بھی رومن سپاہیوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پہچان کرانے کے لئے ’’بوسے‘‘ کا کوڈ رکھنا پڑا تھا کیونکہ وہ بھی اپنے مصاحبین میں سب کی طرح عام انداز میں بیٹھا کرتے تھے۔
ان مذہبی روایات کو یورپی ملکوں خصوصاً سکینڈے نیویا کے ملکوں نے کس خوبصورتی سے اپنایا ہے۔ جائزہ لیں تو اس سادگی پر دل حیران رہ جاتا ہے پھر سمجھ میں آتا ہے کہ انصاف پر مبنی یہ معاشرے کیوں پھل پھول رہے ہیں، ترقی کرتے چلے جا رہے ہیں۔
غالباً سویڈن یا سکینڈے نیویا کا کوئی اور ملک تھا جب ’’وار آن ٹیرر‘‘ کے زمانے میں وہاں کے وزیراعظم نے اپنی حفاظت کے لئے دو گارڈ رکھ لئے تو معاملہ عدالت تک جا پہنچا۔ جج نے کہا ملک کے سارے شہری قابل احترام اور برابر ہیں۔ اگر وزیراعظم نے اپنی حفاظت کے لئے دو گارڈ رکھ لئے ہیں تو کیا سب شہریوں کو دو دو گارڈ میسر ہیں؟ نہیں تووزیراعظم کو بھی گارڈ رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ سویڈن کے وزیراعظم اولف پالمے بس میں سب کی طرح سفر کرتے رہے جس طرح کئی یورپی ملکوں کے وزراء اعظم آج بھی کرتے ہیں۔
ان باتوں پر دھیان دیں تو یک لخت خیال کے گھوڑے اپنے ملک و معاشرے کی طرف باگ موڑ لیتے ہیں۔ پھر ذہن میں آتا ہے کہ آخر کس قسم کا نفسیاتی بیمار معاشرہ بنتے جا رہے ہیں جو اتنی سی بات نہیں سمجھ پاتے کہ آزادی سادگی میں ہے۔ اگر آپ بڑے بڑے قافلے لیکر ہجوم کے ہجوم کو یرغمال بنا لیتے ہیں تو آزاد تو آپ بھی نہیں ہوتے بلکہ اپنے چوکیداروں کے یرغمال ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے پروٹوکول لینے والوں نے کچھ سوچا ہے کہ وہ آزادی سے کسی ڈھابے یا دکان پر چائے تو درکنار کسی جگہ ایک سیکنڈ کیلئے رْک بھی نہیں سکتے، کوئی مقام دل کو بھا جائے تو وہاں چند لمحوں کیلئے ٹھہر نہیں سکتے۔ وہ بے بس، لاچار لوگوں کو سڑکوں پر یرغمال بنا کر خود بھی پروٹوکول دینے والوں کے قاعدوں، قوانین کے غلام بن جاتے ہیں۔ ان کی حالت ’’میرا علاج میرے چارہ گر کے پاس نہیں‘‘ والی ہو جاتی ہے اور وہ فولادی ڈبے میں قید اس خوش فہمی میں مبتلا تیزی سے ’’لڑھکتے‘‘ رہتے ہیں کہ وہ آزاد ہیں۔
روسو نے اپنی مشہور زمانہ کتاب سوشل کنٹریکٹ ( contract Social) میں کیا خوب لکھا ہے کہ ’’جو سمجھتا ہے اس نے دوسروں کو غلام بنا لیا اصل میں وہ خود غلاموں کا غلام ہوتا ہے۔‘‘
خیر بات اپنے معاشرے کی ہو رہی تھی جو ’’روؤں دل کو یا پیٹوں جگر کو میں‘‘ والی صورتحال میں گرفتار ہے۔ ہم لوگ کیا انگریز کے دورِ غلامی سے بھی گئے گزرے ہیں جب برصغیر تقسیم ہو رہا تھا توانگریز نے اپنے افسروں پر واضح کردیا تھا کہ برطانیہ واپس جانے پر انہیں انتظامی پوسٹیں نہیں مل سکتیں کیونکہ وہ ایک آزاد معاشرہ ہے اور انہیں غلام معاشرے کو مدِنظر رکھ کر تربیت دی گئی تھی۔ انگریز تو اس سے تائب ہوگیا لیکن حیرت ہے آزادی کے اتنے برسوں بعد بھی ہماری چال وہی بے ڈھنگی سی ہے۔ ہمارے اداروں میں اکڑی گردنوں سے لے کر ’’داخلہ سختی سے منع ہے‘‘ والے دفتروں تک وہی صورتحال ہے جو تقسیم سے پہلے تھی۔ پھر سوال تو بنتا ہے کہ یا تو ہم آزاد نہیں یا پھر آزادی کے معنی ہی نہیں سمجھ پائے۔
گبریل گارشیا مارکیز بہت بڑے ادیب تھے۔ ان کے ناول ’’تنہائی کے سو سال‘‘ (Hundred years of Solitude) نے کمال شہرت پائی۔ کولمبیا کے اس ادیب کا یہ ناول 60 سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوا اور نوبل انعام الگ سے حاصل کیا۔ جب وہ اپنا یہ ناول لکھ رہے تھے تو گھر میں بہت تنگی آ گئی۔ دو ہی راستے تھے یا تو وہ ناول لکھنا چھوڑ کر روزی روزگار کی فکر کرتے یا انہیں کوئی سپورٹ کرتا۔ اس مشکل وقت میں انکی بیگم آگے آئیں۔ انہوں نے مصنف (اپنے شوہر)کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے معاشی مسائل سے خود سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔ وہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتیں اور اپنے گھر کا خرچہ چلاتیں۔ 6 ماہ کی مشقت کے بعد جب مارکیز نے ناول مکمل کیا تو اْس نے ایک پبلشر کو دکھایا۔ پبلشر نے جب مسودہ پڑھ کر کہا کہ ’’مارکیز تم بہت بڑے آدمی بننے والے ہو، تمہارے اردگرد لوگوں کا ہجوم دیکھ رہا ہوں‘‘ اس پر گبریل گارشیا مارکیز نے تنگی حالات کے باوجود کہا کہ ’’ایسا ہے تو پھر میری موت کا انتظار کریں کیونکہ اس طرح تو میں لوگوں میں گھرے رہ کر اپنی آزادی کھو دوں گا، میرے لئے یہ بہت مشکل بات ہوگی۔‘‘
متوازن معاشرے جو آزادی کی اہمیت جانتے ہیں وہ سادہ زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے وزراء اعظم سائیکلوں پر بھی شاپنگ کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کے ججز بائیسیکل پر دفتر جانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے، ان کے جرنیل خود کافی بنا لیتے ہیں اور ان کے افسر فائلوں کو ایک میز سے دوسری میز تک خود پہنچانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ اگر اتنے بڑے ملکوں کے ان کرتا دھرتاؤں کو ہاتھ سے کام کرنے، سادگی سے زندگی گزارنے اور پروٹوکول کے بھونپو کے بغیر سفر کرنے میں کوئی تردد نہیں تو ہم ’’مقروض ابنِ مقروض‘‘ کس کھیت کی مولی ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم تیسرے درجہ کے نفسیاتی مریض بن چکے ہیں اور نمرود کے جوتوں کی طرح ’’ہٹو بچو کی صدائیں‘‘ ہمارے احساسِ کمتری کے سردرد کو وقتی سکون مہیا کر دیتی ہیں اور بس!
سڑکوں پر روکے جانے اور پروٹوکولز کی متواتر آمد دیکھ کر وہی پرانا قصہ یاد آگیا۔ جی بالکل وہی پْل والا جس پر ٹیکس وصول کیا جاتا تھا۔ لوگ قطار اندر قطار ٹیکس ادا کرتے اور پھر اپنے کاموں کو نکلتے تھے۔ جب بادشاہ نے دیکھاکہ ’’محترم رعایا‘‘ بڑی خوشی سے ٹیکس ادا کر رہی ہے تو اس نفسیاتی مریض بادشاہ سے یہ سب برداشت نہیں ہوا اور حکم صادر فرمایا کہ دو دو جوتے بھی لگائے جائیں، کچھ روز بعد لوگ احتجاج کرتے شاہی محل کے باہر اکٹھے ہو گئے تو ظالم بادشاہ اندر ہی اندر بہت ڈرا لیکن بظاہر اسی طرح گردن اکڑائے جس طرح ہمارے تمام ’’نجات دہندگان‘‘ ہر کام کا بیڑہ غرق کرکے گردن اکڑائے رہتے ہیں۔ محل کی بالکونی پر جلوہ افروز ہوا اور انجان بن کر عوام سے احتجاج کی وجہ پوچھی تاہم یہ سن کر مطمئن ہو گیا کہ عوام جوتے مارے جانے اور ٹیکس لگائے جانے پر نہیں بلکہ اس بات پر خفا ہیں کہ ان کا وقت بہت قیمتی ہے جبکہ پْل پر صرف دو جوتے مارنے والے ہوتے ہیں جس سے وقت بہت ضائع ہوتا ہے اس لئے جوتے مارنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔
ہمارے اربابِ اختیار سے بھی گزارش ہے موسم کی شدت کے باعث عالی جناب کی سواریاں بھی گزرتے بہت وقت لیتی ہیں اس پر ستم یہ کہ ہرکارے عالی جناب کی سواریوں کی آمد سے کئی کئی منٹ پہلے ہی ٹریفک بند کر کے شہریوں کو ’’چْلو بھر پسینے‘‘ میں ڈوب مرنے کا تو بہت موقع فراہم کر دیتے ہیں لیکن عوام پھر بچ نکلتے ہیں عوام الناس بلکہ ستیاناس کی بہتری کیلئے ایک تو ہرکاروں کو ضرورت سے زیادہ وقت کیلئے ٹریفک روکنے سے منع فرما دیں اور دوسرے ممکن ہو تو پروٹوکول کی گاڑیاں ہی تھوڑی کم کر دیں تاکہ عام آدمی بھی تھوڑا ہی سہی آزادی کے احساس کا مزہ لے سکے۔ بقول افتخار عارف!
میرے خدامجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے