صدر مملکت آصف علی زرداری نے وزیر اعظم محمدشہباز شریف کی ایڈوائس پر آرٹیکل 57کے تحت نئے فنانس بل کی منظوری دیدی ہے۔ مالی سال 25۔2024 کے نئے وفاقی بجٹ میں گریڈایک سے سولہ تک ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اورگریڈ17 سے لیکرگریڈ22 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصداضافہ کی تجویزدی دی گئی ہے، ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 15 فیصداضافہ کرنے کااعلان کیاہے ، جس پر سرکاری ملازمین اور پنشنرز خوشی کے شادیانے بجارہے ہیں ۔ جبکہ کم سے کم تنخواہ کی حد37 ہزارروپے مقرر کرنے کی تجویز بھی خوش آئند ہے۔
قومی اسمبلی میں20جون کو آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ مالی سال 2024-25 کے لئے اقتصادی ترقی کی شرح 3.6 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ افراطِ زر کی اوسط شرح 12 فیصد متوقع ہے۔ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.9 فیصد جبکہ پرائمری سرپلس جی ڈی پی کا ایک فیصد ہونے کا تخمینہ ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ایف بی آر کے محصولات کا تخمینہ 12,970 ارب روپے ہے جوکہ جاری مالی سال سے 38 فیصد زیادہ ہے۔ وفاقی محصولات میں صوبوں کا حصہ 7,438 ارب روپے ہوگا۔وفاقی نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 3,587 ارب روپے ہوگا۔
نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں جاری اورنئے ترقیاتی منصوبوں پربھرپورتوجہ دی گئی ہے، سالانہ ترقیاتی پروگرام کیلئے ایک ہزار چار سو ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے جبکہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے ایک سو ارب روپے اضافی مختص کیے گئے ہیں۔ جبکہ دو ہزار ایک سو بائیس ارب روپے دفاعی ضروریات کیلئے فراہم کیے جائیں گے، سول انتظامیہ کے اخراجات کے لیے آٹھ سو انتالیس ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔
پنشن کے نظام میں ایک ہزار چودہ ارب روپے لاگت سے نئی اصلاحات کی جارہی ہیں۔ بجلی، گیس اور دیگر شعبوں کے لیے سبسڈی کے طور پر 1,363 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔بجٹ میں مجموعی گرانٹس کاحجم 1,777 ارب روپے ہے جس میں بی آئی ایس پی، آزادجموں وکشمیر، گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے اضلاع، ہائیرایجوکیشن کمیشن، ریلوے، ترسیلات زر اور آئی ٹی کے شعبے کو فروغ دینے پرخصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
نئے بجٹ میں معاشی طورپرکمزورطبقات کو مہنگائی کے اثرات سے بچانے کیلئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 27 فیصد اضافے کے ساتھ 593 ارب روپے تک لے جانے کی تجویز ہے،مستفید ہونے والے افراد کی تعداد 93 لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ کی جائے گی،تعلیمی وظائف میں مزید 10 لاکھ بچوں کا اندراج کیا جائے گا، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے مالی خود مختاری کا ہائی برڈ سوشل پروٹیکشن پروگرام کا بھی آغاز کیا جا رہا ہے۔ زراعت کو قومی معیشت کا اہم ستون قراردیتے ہوئے وزیر اعظم کے کسان پیکیج کے تحت5 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔
اس کے علاوہ توانائی کے شعبہ ،گردشی قرضوں کے چیلنجوں پر قابو پانے، بجلی کی تقسیم کو بہتر بنانے پربھی توجہ دی گئی ہے،11ارب لاگت سے این ٹی ڈی سی کی تنظیم نو کی جائیں گی، نوڈسکوز اور جینکوز کی نجکاری کو تیز کیا جائیگا، بجلی چوری کیخلاف مہم کو زیادہ منظم کیا جائے گا، بجلی کی پیداوار کو مہنگے برآمدی فیول کی بجائے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقل کرنے کی ترجیح دی جائیگی ، توانائی کے شعبہ کیلئے ترقیاتی بجٹ میں 253 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔
نئے ترقیاتی بجٹ کا ایک انتہائی اہم اور مثبت پہلویہ ہے کہ اس میںزرعی ترقی کی خاطر آبی انقلاب برپا کرنے کیلئے 206 ارب روپے کی خطیر رقم پینے کے صاف پانی تک رسائی، زرعی پیداواری صلاحیت اور ہائیڈل پاور کے متعلقہ شعبوں میں لگائی جائے گی، مہمند ڈیم کیلئے 45، دیامیر بھاشا کیلئے 40، چشمہ رائیٹ بینک کینال کیلئے 18 ارب روپے اور بلوچستان میں پٹ فیڈر کینال کی ری ماڈلنگ کیلئے 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کیلئے 79 ارب روپے سے زیادہ رقم مختص کی گئی ہے، کراچی میں آئی ٹی پارک کی تشکیل کیلئے 8 ارب روپے، ٹیکنالوجی پارک ڈویلپمنٹ پراجیکٹ اسلام آباد کیلئے 11 ارب روپے، پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ کیلئے 2ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔
موجودہ حکومت نے نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میںعظیم الشان تعلیمی انقلاب کا سنگ ِ بنیاد بھی رکھ دیا ہے اور بہت سے انقلابی اقدامات اٹھائے گئے ہیں، جن میں اسلام آباد کے 167 سرکاری سکولوں میں انفراسٹرکچر اور تعلیمی سہولیات کو بہتر بنانے کیلئے رقم مختص کرنے کی تجویز ہے، اسلام آباد کے 200 پرائمری سکولوں میں طلباء کو متوازن اور غذائیت سے بھرپور کھانا فراہم کیا جائیگا،علم اور تحقیق کے کلچر کو فروغ دینے کیلئے ای لائبریریاں قائم کی جائیں گی، اسلام آباد کے 16 ڈگری کالجز کو نسٹ، این ایس یو، نمل اور کامسیٹس جیسی مشہور یونیورسٹیوں کے تعاون سے اعلیٰ نظام کے حامل تریبتی اداروں میں تبدیل کیا جائے گا، دیہی سے شہری علاقوں تک طالبات کے سفر کیلئے پنک بسیں متعارف کرائی جا رہی ہیں، وزیراعظم کی ہدایت پر دانش سکولوں کے پروگرام کو اسلام آباد، بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان تک پھیلایا جائیگا۔
نئے وفاقی بجٹ میں بیرون ملک مقیم اہل وطن کی مدد کیلئے متعدد سہولیات متعارف کروائی گئی ہے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے جانے والے ترسیلات زر کے فروغ کیلئے 86.9 ارب روپے لاگت سے ٹی ٹی چارجز کی واپس ادائیگی، سوہنی دھرتی سکیم، افرادی قوت کو مارکیٹ کے جدید ترین تقاضوں کے مطابق تیار کرنے کیلئے سنٹر آف ایکسلینس ، تارکین وطن کی شکایات کے بروقت ازالے کیلئے ایک بین الاقوامی کال سنٹر کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی غیر ملکی خدمات کے اعتراف کیلئے’ محسن پاکستان ایوارڈ ‘متعارف کرایا جا رہا ہے۔
بجٹ میں برآمدات کے فروغ کیلئے ایگزم بینک کے ذریعے ایکسپورٹ ری فنانس سکیم کیلئے مختص رقم کو 3 ارب 80 کروڑ سے بڑھا کر 13 ارب 80 کروڑ کرنے کی تجویزدی گئی ہے۔ مستقبل میں یہ اقدام پاکستان کے برآمدی شعبے کو ایک اہم لائف لائن فراہم کرے گا۔ خصوصی اقتصادی زونز کے ذریعے پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کئے جائیں گے،پاکستانی کمپنیاں چینی کمپنیوں کے ساتھ جوائنٹ وینچر کر سکیں گی، سی پیک کے دوسرے مرحلے سے ملک میں صنعتی شعبے اور برآمدات میں اضافے کا ایک نیا باب کھلے گا۔ بجٹ میں ماحولیات اورموسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر’نیشنل کلائمیٹ فنانس سٹرٹیجی ‘اکتوبر 2024 تک تیار کر لی جائے گی جس کا مقصد گلوبل کلائمیٹ فنانس پاکستان میں لانا ہے۔
ای بائیکس کیلئے 4 ارب اور توانائی کی بچت والے پنکھوں کیلئے 2 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں، سیلاب میں کمی اور زرعی وگھریلو استعمال کے لیے پانی کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ڈیموں، آبپاشی کے نظام، اور نکاسی آب کے نیٹ ورکس کی تعمیر کے ذریعے پانی کے وسائل کے مؤثر انتظام پرخصوصی توجہ دی جائے گی۔ بجٹ میں تمام شراکت داروں کی مشاورت سے کراچی کے انفراسٹرکچر کو جدت کی طرف لے جانے کیلئے’’ جامع کراچی پیکیج‘‘ کے علاوہ حیدرآباد، میر پور خاص، سکھر اور بے نظیر آباد کے لیے منصوبے مرتب کیے جائیں گے ۔ بجٹ میں اعلان کردہ ان تمام خوش آئند اہداف کو یقینی بنانے کیلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ بجٹ میں مختص کی گئی تمام گرانٹس،ٹیکسز، ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کیلئے شفاف طریقہ وضع کیا جائے اور کرپشن کے تمام راستے مسدود کردیے جائیں۔
٭٭٭
وفاقی بجٹ --- قومی خوشحالی کا ضامن!
Jul 02, 2024