گیس کی لوڈشیڈنگ سے لوگ پریشان۔ کھانا پکانا مشکل ہو گیا۔
عجیب و غریب واقعات تو پہلے بھی ہمارے ہاں اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ گرمیوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ کی گئی ہو۔ مگر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اب تو سردیوں میں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ جاری رہتی ہے۔ اس لیے اب گرمیوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ دیکھ کر حیرت نہیں ہو رہی۔ ایسے الٹے سیدھے کام ہمارے ہاں ہوتے رہتے ہیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ پہلے گیس اور بجلی کے ریٹ قابلِ برداشت ہوتے تھے۔ مگر اب ان دونوں کے ریٹ ناقابل برداشت ہو گئے ہیں۔ عام آدمی تو گھریلو سامان بیچنے پر مجبور ہو گیا تاکہ یہ بل ادا کرے۔ عام آدمی کی بات چھوڑیں شیخ رشید جیسے متمول کھاتے پیتے بندے کے لیے بھی اب یہ دونوں بل ادا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ وہ شکوہ کرتے پھر رہے ہیں کہ ان کا بجلی کا بل ایک لاکھ 60 ہزار اور گیس کا ایک لاکھ روپے آیا ہے۔ ویسے ان کا شکوہ بجا بھی ہے۔ ان کے کون سے بیوی بچے ہیں جو دن بھر اے سی چلاتے ہیں یا لال حویلی پر چراغاں ہوتا ہے کہ اتنا بل آیا۔ نہ ہی ان کے گھر میں چولہا جلتا ہے کیونکہ چولہا جلانے والی ہی کوئی نہیں جو اپنے لیے، میاں اور بچوں کے لیے تین وقت چولہا جلا کر گیس استعمال کرتی ہے کہ اتنا بھاری بل آیا۔ ویسے شیخ جی چیک کر لیں کہیں ان کی بجلی چوری تو نہیں ہو رہی دوسروں کا بل ان کو پڑ رہا ہے یا ان کے گیس پائپ میں کوئی لیکج تو نہیں ہو رہی کہ میٹر تیز چل رہا ہے۔ وجہ جو بھی ہو حکومت کو چاہیے کہ وہ لوڈشیڈنگ کے باوجود اتنے بھاری بل بھیج کر عوام کو پریشان نہ کرے۔
٭٭٭٭٭
ٹی ٹونٹی میں شرکت پر ٹیم کو 2 کروڑ 89 لاکھ روپے ملیں گے۔
لوگ تو یہی سمجھے تھے کہ امریکہ میں ہماری ٹیم نے جو بْری کارکردگی دکھائی ’’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے‘‘ کے مصداق گئے اور واپس آئے۔ آنے جانے اور وہاں ٹھہرنے پر جو لاکھوں کے اخراجات آئے وہ کھوہ کھاتے گئے۔ بدنامی الگ ہوئی کہ دنیا کی نمبر ون ٹیموں میں شامل ٹیم نوآموز ٹیموں کے سامنے بھی ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔
اب ٹیم میں پی سی بی میں سرجری کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ضرور ہونی چاہیے یہ سرجری اور اس کے لیے سب سے پہلی ڈوز کے طور پر ٹی ٹونٹی ٹورنامنٹ میں شرکت کے لیے پاکستانی ٹیم کو ملنے والی 8 کروڑ 22 لاکھ روپے کی رقم ان کھلاڑیوں میں تقسیم کرنے کی بجائے بحق سرکار ضبط کی جائے اور اس میں سے ایک دھیلہ بھی کسی کو نہ دیا جائے۔ کروڑوں کرکٹ کے شائقین کا دل توڑنے والوں کے لیے یہ سزا بہت ضروری ہے۔ اس طرح انہیں احساس ہو گا کہ انہیں کوئی سرخاب کے پَر نہیں لگے کہ ان کے ناز و نخرے برداشت ہوں۔ یہ تمام مراعاتیں ان کی کارکردگی سے منسلک ہیں۔ اگر کارکردگی نہیں تو انعام بھی نہیں۔ اس کے ساتھ ہی پی سی بی کے ممبران و کھلاڑیوں سمیت سب کو لائن حاضر کر کے ان کا علاج کیا جائے۔ اگر حکومت کو ویسے ہی ان کھلاڑیوں پر ترس آ جائے تو اس امریکہ کے دورے کے تمام جملہ اخراجات کاٹ کر اس 8 کروڑ 22 لاکھ میں سے جو رقم بچ جائے وہ رقم ان میں تقسیم کر دے۔ اس طرح چلو وہ بھی بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی پر اکتفا کر لیں گے اور شکر ادا کریں گے کہ کچھ تو ملا اگر یہ بھی نہ ملتا تو وہ کیا کر لیتے۔
٭٭٭٭٭
سندھ میں نمبر پلیٹوں کی نیلامی۔ نمبر ون 10 کروڑ میں فروخت۔
دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے۔ یہ خاص نمبر بھاری رقم دے کر خریدے جاتے ہیں عرب ممالک میں تو نیلامی میں یہ نمبر ہماری کرنسی کے مطابق اربوں روپوں میں بکتے ہیں۔ یورپ میں بھی ان نمبروں کی نیلامی سے اچھی خاصی رقم ملتی ہے۔ بس ان ممالک میں یہ رقم کسی خیراتی یا فلاحی ادارے کو یا ہسپتال کو عطیہ کر دی جاتی ہے۔
شاید وہاں ہماری نسبت انسانیت ابھی زندہ اور توانا ہے۔ ہمارے ہاں ایسی کوئی روایت نہیں کیونکہ ہمارے اداروں کے اپنے خرچے پورے نہیں ہوتے۔ ہمارا اپنا پیٹ نہیں بھرتا ہم کسی کو کیا عطیہ کریں گے۔ بلکہ ابھی تک تو یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ ہم عطیات، صدقات بھی بڑی دیدہ دلیری سے کھا جاتے ہیں۔یہ رقم اپنی ذات اور گھر پر خرچ کرنے میں ذرا بھر بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ اس بار کراچی میں ان نمبروں کی نیلامی کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں نمبر ون یعنی ایک نمبر 10کروڑ روپے میں خریدا گیا۔ باقی نمبر بھی اچھی قیمت پر بکے اور کروڑوں روپیحاصل ہوئے۔ اس طرح بھی حکومت نہ سہی محکمے کو تو اچھی خاصی آمدنی ہوئی ہو گی۔ اگر باقی شہروں میں بھی شوقین حضرات یہ نمبر اسی طرح اچھی قیمت دے کر حاصل کریں تو زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں بہت شوقین مزاج کہہ لیں یا شوخ کہہ لیں اپنی نئی لگڑری گاڑیوں کی نمبر پلیٹ بھی سب سے الگ لگا کر اپنی امارت کا رعب جھاڑتے ہیں اور فخر سے بتاتے ہیں کہ یہ نمبر انہوں نے اتنے میں لیا ہے۔
اسلام آباد، لاہور، پشاور، ملتان اور فیصل آباد میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو نمود و نمائش پسند کرتے ہیں وہاں بھی یہ نیلامی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭
الیکشن دوبارہ کرائے جائیں۔مولانا فضل الرحمان۔
یہ کونسی نئی بات ہے جس کے لیے مولانا نے پریس کانفرنس کا اہتمام کیا کہ نئے شفاف الیکشن کی ضمانت کے بغیر صلح یا معافی نہیں ہو سکتی۔ یعنی ہم حکومت سے بات چیت نہیں کریں گے۔دراصل پی ٹی آئی والوں نے بھی مولانا کو لال جھنڈی دکھا دی ہے اور کہہ دیا ہے کہ جے یو آئی سے اتحاد نہیں ہو سکتا۔ کیوں؟ اس کا علم تو پی ٹی آئی والوں کو ہی ہو گا۔ معلوم ہوتا ہے یہ بیل منڈھے نہیں چڑھی جس کی وجہ سے مولانا کا موڈ آف ہے۔ کیونکہ وہ پی ٹی آئی کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلانا چاہتے تھے۔ مگر پی ٹی آئی میں تو سب بندوق بدست ہیں۔ انہیں کسی کی پرواہ نہیں اس لیے ایک دو مذاکراتی دور کر کے وہ دوسرے فریق کو ٹاٹا گڈبائی کہہ دیتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے ساتھ بھی انہوں نے یہی کیا اور اب جے یو آئی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
سوال یہ بھی ہے کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اگر نئے الیکشن ہوتے بھی ہیں تو وہ شفاف مان لیے جائیں گے۔ کوئی نہ کوئی جماعت اس پر بھی شکایات کے پہاڑ کھڑے کر دے تو یہ پریکٹس بھی رائیگاں جائے گی۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں نے ہر الیکشن کے خلاف یہی شور مچایا کہ یہ شاف نہیں ہوئے، جھرلو گھمایا گیا۔ یہاں تو اگر فرشتے بھی آ کر الیکشن کرائیں تو شاید وہ بھی متنازعہ ہی رہیں گے۔
بہرحال اب مولانا سب سے دل گرفتہ لگ رہے ہیں۔ حکومت پر ان کو اعتبار نہیں۔ باقی جماعتیں ان پر اعتماد نہیں کرتیں۔ یوں اس بے رخی کے عالم میں کنارہ کرتے ہوئے دوست شرمسار نہیں
وہ ابتلا ہے کہ سائے کا اعتبار نہیں۔
اس لیے لگتا ہے نئے الیکشن کا معاملہ ہنوز دلی دور است‘‘ ہی ہے۔
منگل، 25 ذوالحج ، 1445ھ،2 جولائی 2024ء
Jul 02, 2024