راولا کوٹ ڈسٹرکٹ جیل سے موت کی سزا پانے والے اور دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث انتہائی خطرناک 13 قیدیوں سمیت 20 قیدی گزشتہ روز جیل توڑ کر فرار ہو گئے۔ اس دوران پولیس مقابلہ میں ایک قیدی زخمی ہوا جو بعد ازاں ہلاک ہو گیا۔ ان قیدیوں نے جن میں ثاقب مجید‘ فیصل‘ اسامہ مرتضیٰ‘ ساجد نذیر‘ کمانڈر شہزاد‘ بیت اللہ کلیم‘ مکرم فیصل‘ عامر عبداللہ‘ آصف‘ سہیل رشید‘ شامیر‘ نادر یٰسین‘ عثمان‘ خیام‘ عمامم مصطفیٰ‘ فیضان عزیز‘ شبیر عاقل اور نعمان آصف شامل ہیں‘ جیل کے اندر اہلکاروں کو گن پوائنٹ پر یرغمال بنایا‘ ایک اہلکار کی آنکھوں میں مرچیں ڈالیں اور جیل سے باہر نکل کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ان میں ایک قیدی کمانڈر شہزاد کالعدم تنظیم کا رکن ہے جو بھارت کو مطلوب ہے۔ جیل کے سکیورٹی اہلکاروں نے ملزمان پر فرار ہوتے وقت فائرنگ بھی کی مگر ایک کے سوا تمام قیدی بچ نکلے۔ انکے فرار کے بعد مظفرآباد اور دیگر اضلاع میں ہائی الرٹ کیا گیا اور آزاد کشمیر کے مشیرجیل خانہ جات نے آئی جی جیل خانہ جات سے رپورٹ بھی طلب کی جبکہ جیل سکیورٹی پر مامور سات اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا۔ ایس ایس پی ریاض مغل کے مطابق قیدیوں کے فرار ہونے میں جیل عملہ ملوث ہو سکتا ہے۔
راولا کوٹ جیل میں خطرناک قیدیوں کے فرار کی یہ کہانی بظار تو کوئی فلمی کہانی محسوس ہوتی ہے تاہم جتھہ بند ہو کر قیدیوں کے جیل سے فرار ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ پی ٹی آئی کے دور میں خیبر پی کے کی ایک جیل سے کالعدم تحریک طالبان کے بیسیوں کارکن قیدی پوری دیدہ دلیری کے ساتھ فرار ہوئے تھے۔ اسی طرح پنجاب کی ایک جیل میں دورے پر گئے ایک ڈسٹرکٹ سیشن جج‘ سول جج اور انکے عملہ کے دو ارکان بھی قیدیوں کے ہاتھوں جیل کے اندر قتل ہو چکے ہیں۔ اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ یا تو جیلوں کا سیکورٹی نظام انتہائی ناقص ہے یا متعلقہ جیل کے سٹاف کی ملی بھگت سے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اگر خطرناک قیدیوں کے جیلوں سے فرار ہونے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو مجرمان کو کیفرکردار کو پہنچانے کا تصور ہی بے معنی ہو کر رہ جائیگا۔ جیل حکام اور آزاد کشمیر حکومت کو جیل سے قیدیوں کے فرار کے اس واقعہ کو اپنے لئے ٹیسٹ کیس بنانا چاہیے۔