پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور وفاقی حکومت میں شامل اس کی اتحادی جماعتوں نے عام انتخابات سے پہلے عوام سے کیے گئے وعدے بھلا کر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی تمام جائز ناجائز شرائط کو مانتے ہوئے عوام ناروا بوجھ ڈالنا شروع کردیا ہے۔ یکم جولائی سے نئے مالی سال کے آغاز کے ساتھ ہی ایک تو حکومت کی طرف سے عوام کو بہت سے نئے ٹیکسوں کا تحفہ دیا گیا ہے اور دوسری جانب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے عوام کو ریلیف دینے کے دعوے تو بہت سے کیے جارہے تھے لیکن حقیقت ان دعووؤں کے بالکل برعکس ہے اور ٹیکسوں کی بھرمار سے یہ واضح پیغام دیا جارہا ہے کہ حکومت کو عوام کا ہرگز احساس نہیں ہے۔ یہ صورتحال عوام کے لیے تو پریشانی کا باعث بنے گی ہی لیکن اس کے ردعمل میں جو کچھ ہوگا وہ حکومت کو بھی چین سے نہیں بیٹھنے دے گا۔
عوام پر ٹیکسوں اور مہنگائی کا بوجھ ڈالنے کے بعد وفاقی وزیرخزانہ ومحصولات سینیٹر محمد اورنگزیب کہتے ہیں کہ ملکی معیشت کی صورتحال مستحکم ہے۔ حکومتی اقدامات سے عالمی برادری اور بین الاقوامی اداروں کا اعتماد بحال ہواہے۔ معاشی استحکام کو تسلسل کی طرف لے کر جائیں گے۔ 42 ہزار ریٹیلرز کی رجسٹریشن ہوچکی ہے جن پر جولائی سے ٹیکسوں کا اطلاق ہوگا۔ نان فائلرز کی اختراع کو ختم کریں گے۔ ڈی ایل ٹی ایل کی ادائیگی کے لیے فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ ڈھانچہ جاتی اصلاحات نہیں لائیں گے تو مسائل جاری رہیں گے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ نئے اور طویل پروگرام پر مثبت اور درست سمت میں پیشرفت ہورہی ہے۔ اتوار کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہاکہ اہم اقتصادی اشاریوں کے ساتھ پاکستان کا مالی سال اختتام پذیر ہو رہا ہے ، کلی معیشت کی صورتحال مستحکم ہے ، مالی خسارہ اور حسابات جاریہ کے کھاتوں کے خسارہ میں کمی آئی ہے، پاکستان کی کرنسی مستحکم ہے، مہنگائی کی شرح گزشتہ سال کے 38 فیصد سے کم ہوکر 12فیصد کی سطح پرآگئی ہے۔
اپنی پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیرخزانہ نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ یہ ہمارا آخری پروگرام ہوگا، حکومت برآمدات میں اضافہ کے لیے اقدامات کرے گی، برآمدات پر نہیں بلکہ برآمدات پر حاصل منافع پر ٹیکس ہوگا، اگر برآمدکنندہ کو منافع نہیں ہوگا تو اس سے ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ سیلز ٹیکس ریٹرن میں تاخیر نہیں ہوگی، آئندہ دو تین روز میں تمام سیلز ٹیکس ریٹرن کی ادائیگی کردی جائے گی، برآمدکنندگان کے ڈی ایل ٹی ایل بھی جلد ادا ہوں گے اور اس حوالہ سے بجٹ میں فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ غیرملکی سرمایہ کاری میں اضافہ کے لیے اقدامات کاسلسلہ جاری رہے گا۔ سی پیک فیز ٹو میں مونیٹائزیشن پر بات ہورہی ہے۔ نئے مالی سال میں ہم بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹس میں جائیں گے اور پانڈا بانڈ بھی جاری کریں گے۔
ادھر، پنجاب اسمبلی سے منظوری اورگورنر پنجاب کے دستخطوں کے بعد فنانس بل 2024-25ء کا آج یکم جولائی سے اطلاق ہوگیا ہے جس کے بعد کورٹ فیسوں اور سٹیمپ ڈیوٹی کے ریٹ میں اضافہ ہو گیا ہے تاہم شہری علاقوں میں غیر منقولہ جائیدادوں پر عائد ٹیکس رینٹل ویلیو کی بجائے کیپٹل ویلیو (ڈی سی ریٹ )کی بنیاد پر وصولی یکم جنوری 2025ء سے کی جائے گی۔فنانس بل کے مطابق حکومت کو اختیار حاصل ہوگیا ہے کہ وہ کسی بھی پراپرٹی کو ہائی ویلیو پراپرٹی ڈکلیئر کر سکتی ہے ، جائزہ لینے والی اتھارٹی جائیداد کی سیلف اسیسمنٹ کا آڈٹ کر ا سکے گی اور اگر کوئی شخص ٹیکس کم دے گا یا ٹیکس چوری کرنے کی کوشش کرے گا تو اس پر چھپائے یا چوری کیے جانے والے ٹیکس کے علاوہ اتنی مالیت کا جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔
حکومت یہ تمام اقدامات کر کے دعوے کررہی ہے کہ وہ معیشت کو مستحکم بنا رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ معیشت اب بھی اتنی ہی غیر مستحکم ہے جتنی کہ پہلے تھی۔ عام آادمی کے معیارِ زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ اس کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب غریب تر۔ متوسط طبقہ جس کا کسی بھی ملک میں اکثریت میں ہونا اس ملک کی معیشت کے استحکام کی ضمانت سمجھا جاتا ہے، پاکستان میں وہ طبقہ تیزی سے سکڑتا جارہا ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ لوگوں کی قوتِ خرید میں تیزی سے کمی آرہی ہے اور ٹیکسوں اور ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ان کے معاشی مسائل میں اضافہ کررہا ہے۔ مزید افسوس ناک بات یہ ہے کہ قابلِ قیاس مستقبل میں یہ معاملہ بہتری کی طرف جاتا دکھائی نہیں دے رہا۔
نون لیگ نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے ہٹاتے ہوئے عوام کو بہت سے سبز باغ دکھائے تھے، سولہ مہینے کے دوران شہباز حکومت کی جو کارکردگی رہی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد جب دوبارہ محمد شہباز شریف وزیراعظم بنے تو انھوں نے پھر عوام کو حوصلہ دینے کے لیے کئی وعدے کیے لیکن تاحال ان میں سے کوئی وعدہ وفا نہیں ہوا۔ کسانوں پر بوجھ ڈال کر گندم سستی کرنا کوئی بڑا کارنامہ نہیں۔ حکومت جس دن پٹرول، بجلی اور گیس کے نرخوں میں کمی لائے گی عوام کو ریلیف تب ملے گا۔ وزیر خزانہ بار بار نان فائلر نان فائلر کی رٹ لگاتے ہیں تو ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ اسمبلیوں اور سینیٹ میں بیٹھے ہوئے فائلرز کیا اپنی اصل آمدن اور اثاثوں کے مطابق ٹیکس دے رہے ہیں؟ اگر قومی خزانے پر واقعی بوجھ کو کم کرنا مقصود ہے تو پھر عوام کو دی جانے والی چند کروڑ کی سبسڈی ختم کرنے کی بجائے اشرافیہ کو دی جانے والی اربوں کھربوں روپے کی مراعات و سہولیات ختم کی جائیں۔ حکومت عوام پر ناروا بوجھ ڈال کا ان کے غضب کو دعوت دے رہی ہے، یہ سلسلہ جتنی جلد ممکن ہوسکے بند ہونا چاہیے۔