حریدی یہودیوں کی بھرتی، اسرائیلی فوج کے پاس دو آپشن کیا ہیں؟

Jul 02, 2024 | 11:07

اسرائیل میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ حکومت کو حریدی یہودی انسٹی ٹیوٹ کے طلبہ، جو کئی دیہائیوں سے چھوٹ حاصل کئے ہوئے تھے، کو بھی فوج میں بھرتی کرنا چاہیے۔

اس فیصلے کے بعد اب اسرائیلی فوج جلد ہی فوجی خدمات کے لیے اہل تقریباً 63 ہزار حریدی طلبہ کو بھرتی کرنے کے احکامات بھیجنا شروع کر دے گی تاہم اس کے حوالے سے میکانزم ابھی تک واضح نہیں ہے۔ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق عدالتی فیصلے کے بعد اسرائیلی اٹارنی جنرل کے دفتر نے بھی وزارت دفاع کو اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دفاعی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مذہبی سکولوں کے طلبہ کو بھرتی کرنے کا عزم ہے اور یکم جولائی سے اس فیصلے پر عمل شروع ہو رہا ہے۔اٹارنی جنرل گل لیمن نے اپنے قانونی مشیر کو لکھے گئے خط میں فوجی خدمات انجام دینے کے لیے 3000 حریدی مرد یہودیوں کی ضرورت پر زور دیا۔ اسرائیلی فوج نے عدالت کو بتایا کہ وہ 2024 بھرتی سال کے دوران صرف 3 ہزار کے قریب یہودی مذبی طلبہ کو صفوں میں بھرتی کر سکتی ہے۔ گذشتہ سالوں میں ہر سال اوسط 1800 مذہبی یہودی طلبہ کو بھرتی کیا گیا تھا۔یاد رہے اسرائیل میں مردوں کے لیے فوجی خدمات کو لازمی سمجھا جاتا ہے تاہم مذہبی مردوں کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ ان طلبہ کا مقصد کا مقصد خود کو مذہبی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے اور لوگوں کی شناخت کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے وقف کرنا تھا۔

طریقہ کار کیا ہے؟
حریدی یا مذہبی طلبہ کو فوج میں بھرتی کرنے کے حوالے سے فوج کے سامنے "دو اہم آپشنز" ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ بھرتی کے اہل افراد کے لیے بے ترتیب قرعہ اندازی کی جائے۔ جتنی بھی تعداد بھرتی کرنا ہو اتنے افراد کی نام نکال لیا جائے۔تاہم اس طرح کے طریقہ کار پر عمل درآمد حریدی برادری اور اس کی قیادت کے ساتھ براہ راست تصادم کا باعث بنے گا۔ کیونکہ یہ "اشرافیہ" مذہبی سکولوں کے طلبہ ہیں اور انہیں حریدی برادری کے اہم حصے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔لہٰذا اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ میں مذہب اور ریاستی پروگرام کے ڈائریکٹر شلومیٹ رویتزکی ٹور پاز کہتے ہیں کہ دوسرا اور متبادل آپشن یہ ہے کہ کم سے کم اہم گروپوں کو بھرتی کیا جائے۔ یعنی ہم عصر حریدی کمیونٹی کے نوجوانوں کو اور الگ ہوکر کام کرنے والے مذہبی سکولوں میں پڑھنے والوں کو بھرتی کیا جائے۔

معاصر حریدی برادری
اسرائیل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ کے اعداد و شمار کے مطابق "معاصر حریدی" کمیونٹی، جس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو بنیادی مضامین پڑھانے والے سکولوں میں جاتے ہیں اور جو تارکین وطن خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، کل حریدی کمیونٹی کا 11 سے 15 فیصد حصہ ہیں۔آبادی کا یہ طبقہ مرکزی دھارے کی حریدی برادری کے مقابلے اسرائیلی معاشرے میں زیادہ مربوط ہے۔ انہیں فوجی خدمات کے خیال کی کم مخالفت کرنے والا بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے فوج دیگر حصوں کے مقابلے میں ان نوجوانوں کو بھرتی ہونے کے لیے زیادہ آمادہ پا سکتی ہے۔بھرتیوں کا ایک اور ممکنہ ذریعہ "مدارس سکول" ہیں جو الٹرا آرتھوڈوکس کمیونٹی کے ذریعے قائم کیے گئے ادارے ہیں۔ یہ یہ ادارے ان نوجوانوں کے لیے ایک ماحول فراہم کرنے کے لیے جو مستقل مذہبی مطالعہ میں دلچسپی نہیں رکھتے اور معاشرے کو مکمل طور پر چھوڑنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔’’ٹائمز آف دا اسرا ئیل‘‘ کے مطابق اسرائیل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ کا اندازہ ہے کہ 63 ہزار حریدی یشیوا طلبہ میں سے بھرتی کے اہل ساڑھے نو ہزار طلبہ ہیں۔یہ یشیوا بنیادی طور پر ایسے مردوں کو الٹرا آرتھوڈکس کمیونٹی میں برقرار رکھنے کے لیے ایک فریم ورک کے طور پر کام کرتے ہیں۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ الٹرا آرتھوڈکس لیڈر وہاں کے طللبہ کو فوج میں خدمات انجام دینے کی اجازت دینے کے لیے تیار ہوں۔حریدیم مذہبی یہودیوں کا ایک گروہ ہے جو مذہبی رسومات پر عمل کرتے ہیں اور اپنی روزمرہ کی زندگی یہودی قانون کے عین مطابق گزارتے ہیں۔ وہ مذہبی اداروں میں داخلہ لے کر کئی دہائیوں تک اسرائیلی فوج میں بھرتی ہونے سے بچتے رہے ہیں۔

مزیدخبریں