سپریم کورٹ نے سُنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت 9 جولائی تک ملتوی کر دی۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 13 رکنی فل کورٹ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کی، فل کورٹ میں جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان شامل ہپیں۔ آج کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’2018ء کے انتخابات میں مخصوص نشستیوں کی الاٹمنٹ کا ریکارڈ مانگا گیا تھا، 2002ء اور 2018ء کے انتخابات میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی ریکارڈ ہے، سیاسی جماعتیں تب مخصوص نشستوں کی اہل ہوں گی جب کم ازکم ایک نشست جیتی ہوگی‘۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ ’2018ء میں 272 مکمل سیٹیں تھیں 3 پر انتخابات ملتوی ہوئے، 13 آزاد امیدوار منتخب ہوئے، 9 امیدوار سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے، مخصوص نشستوں کا فارمولا 265 نشستوں پر نافذ ہوا، 2018ء میں 60 خواتین اور 10 غیرمسلم سیٹیں مخصوص تھیں، مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایا گیا، 2002ء میں بلوچستان میں 20 فیصد آزاد امیدوار منتخب ہوئے، مخصوص نشستوں کے تعین میں آزاد امیدواروں کو شامل نہیں کیا گیا‘۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ’اٹارنی جنرل صاحب آپ نے بنیادی سوال کا جواب ہی نہیں دیا، الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر کردیا، الیکشن کمیشن نے غیرآئینی اقدامات کیے توکیا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کرے؟، ایک جماعت کے ووٹرز کو انتخابی عمل سے ہی باہر کردیا گیا، آئین کی بنیاد ہی جمہوریت پر کھڑی ہے‘۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’میری گزارشات کے آخری حصے میں اس سوال کا جواب ہوگا‘، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ’آزاد امیدواروں کی تعداد 2024ء میں بہت بڑی ہے‘، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’آئین کے مطابق کسی صورت کوئی نشست خالی نہیں چھوڑی جاسکتی‘، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’ماضی میں کبھی آزاد اراکین کا معاملہ عدالت میں نہیں آیا، اس مرتبہ آزاد اراکین کی تعداد بہت زیادہ ہے اور کیس بھی آیا ہے‘۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’پارلیمانی نظام کی بنیاد سیاسی جماعتوں پر ہے، سوال یہ ہے آزاد امیدواروں کی اتنی بڑی تعداد کہاں سے آئی؟ کیا لوگوں نے خود ان لوگوں کو بطور آزاد امیدوار چنا؟ کیا الیکشن کمیشن نے خود ان لوگوں کوآزاد نہیں قراردیا؟ جب ایسا ہوا ہے توکیا عدالت کویہ غلطی درست نہیں کرنی چاہیئے؟ کیا وہ قانونی آپشن نہیں اپنانا چاہیے جواس غلطی کا ازالہ کرے؟‘، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’آرٹیکل51 میں سیٹوں کا زکر ہے، ممبرشپ کا نہیں‘۔ جسٹس منیب اختر نے مزید ریمارکس دیئے کہ ’آرٹیکل 224 رعائت ہے ورنہ کوئی اسمبلی کی سیٹ خالی نہیں چھوڑی جا سکتی، اصل مسئلہ الیکشن کمیشن کی غلطی کے سبب پیش آیا، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی، اگر متبادل طریقے موجود ہیں تو درستگی ہونی چاہیئے، آئین سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ نشستیں خالی نہیں چھوڑ سکتیں‘۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’اصل انجن ہی پولیٹیکل پارٹیز ہیں‘، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’متناسب نمائندگی کا مطلب ہے عوامی نمائندگی جھلکنی چاہیئے‘، جس پر منصور عثمان اعوان نے کہا کہ ’آرٹیکل 51 ڈی کے تحت آزاد اراکین کو الگ رکھا جاسکتا ہے‘، اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ’کسی فریق کو یہ کہتے نہیں سنا کہ نشستیں خالی رہیں، ہر فریق یہی کہتا ہے دوسرے کو نہیں نشستیں مجھے ملیں، آپ پھر اس پوائنٹ پراتنا وقت کیوں لے رہے ہیں کہ نشستیں خالی نہیں رہ سکتیں، موجودہ صورتحال بن سکتی ہے یہ آئین بنانے والوں نے کیوں نہیں سوچا؟ یہ ان کاکام ہے، آئین میں کیا کیوں نہیں ہے یہ دیکھنا ہمارا کام نہیں ہے، بار بار کہہ رہا ہوں ہمارے سامنے موجود آئین کے متن پر رہیں‘۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ’پارلیمانی پارٹی کی تشکیل کا ذکر آئین میں کہاں ہے؟ جس پر منصور اعوان نے بتایا کہ ’پارلیمانی پارٹی کا ذکر صرف آرٹیکل 63 اے میں ہے، آرٹیکل 63 اے کے اطلاق کیلئے ضروری ہے پارلیمانی پارٹی موجود ہو‘، جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ’کیا الیکشن کمیشن سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی پارٹی ڈیکلئیر کرچکا ہے؟‘، اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مجھے اس بات کا علم نہیں ہے‘۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے پوچھا کہ ’الیکشن کمیشن کس اختیار کے تحت پارلیمانی پارٹی ڈیکلئیر کرتا ہے؟ پارلیمانی پارٹی قرار دینے کا نوٹیفکیشن کیسے آیا؟ وہ نوٹیفکیشن سنی اتحاد کونسل نے ریکارڈ پر رکھا ہے‘، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’جواب الجواب دلائل میں وہ خود بتا دیں گے‘، جس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ’وہ نہیں، آپ بتائیں الیکشن کمیشن کے اس نوٹی فکیشن پر کیا کہتے ہیں؟‘ جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹی فکیشن اٹارنی جنرل کو دکھادیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’پارلیمانی پارٹی کی مثال غیر متعلقہ ہے کیوں کہ اس معاملے کا تعلق انتخابات سے پہلے کا ہے‘