پی ٹی آئی کی اسلام آباد کے حلقوں کی پٹیشنز پر جلد سماعت کی درخواستیں منظور

 پاکستان تحریک انصاف کی اسلام آباد کے حلقوں کی پٹیشنز پر جلد سماعت کی درخواستیں منظور کرلی گئیں۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد الیکشن ٹربیونل میں حلقہ این اے 47 اور 48 سے متعلق پٹیشنز کی جلد سماعت کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے کامیاب قرار دیئے گئے امیدوار طارق فضل چوہدری اور راجہ خرم نوازسمیت الیکشن کمیشن حکام کو طلب کرلیا۔ بتایا گیا ہے کہ الیکشن ٹربیونل جسٹس طارق جہانگیری نے شعیب شاہین اورعلی بخاری نے پٹیشنز جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کی درخواستوں پر سماعت کی، اس دوران اسلام آباد ہائی کورٹ ٹربیونل نے اسلام آباد کے حلقوں کی الیکشن پٹیشنز جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کی متفرق درخواستیں منظور کرلیں، عدالت نے کامیاب امیدوارطارق فضل چوہدری اورراجہ خرم نواز سمیت الیکشن کمیشن حکام کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا اور حلقہ این اے 47 اور 48 کے مبینہ دھاندلی کے خلاف پٹیشنز پر سماعت 8 جولائی تک ملتوی کردی۔ قبل ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ ریٹائرڈ ججز کی اپلیٹ ٹریبونل میں تعیناتی کا الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن معطل کرچکی ہے، اسلام آباد کے تین حلقوں کے لیے نئے الیکشن ٹربیونل کیخلاف کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کی، عدالت میں پیش ہونے والے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے تیاری کے لیے وقت دینے کی استدعا کی، جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیئے کہ ’پانچ منٹ وقت لے لیں، کیا پانچ منٹ سے بھی وقت کم کردوں؟ اپ اس آرڈیننس کا کیسے دفاع کریں گے؟‘۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ’کون سا آسمان گرنے لگا تھا کہ قائم مقام صدر سے رات و رات آرڈیننس جاری کروا دیا، پارلیمنٹ کو ختم کردیتے ہیں اور آرڈیننس کے ذریعے حکومت چلواتے ہیں، آپ لوگوں نے آرڈیننس کی فیکٹری لگا رکھی ہے، ایک واہ فیکٹری ہے اور دوسری آرڈیننس فیکٹری ، وہ اسلحہ بنانے ہیں آپ آرڈیننس بناتے ہیں‘۔ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے نئے الیکشن ٹریبونل کو کارروائی سے روک دیا تھا، عدالت نے الیکشن کمیشن حکام سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ’آپ قانونی آدمی ہیں آپ کے ہوتے ہوئے اس قسم کا آرڈر ہوا ہے‘، ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ’فیصلہ الیکشن کمیشن نے کیا کچھ قانونی نکات پر عدالت کی معاونت کریں گے‘، چیف جسٹس عامر فاروق نے ڈی جی لاء الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ الیکشن کمیشن کون سی عدالتی نظیر قائم کر رہا ہے؟ آپ اگر آرڈر کا دفاع کر رہے ہیں تو یہ عدالت آرڈر جاری کرے گی، آپ نے ایک پوزیشن لے لی ہے اب آپ اپنے آرڈر کا دفاع کریں‘۔ الیکشن ٹریبونل سے تینوں حلقوں کا ریکارڈ طلب کرنے پر چیف جسٹس عامر فاروق نے الیکشن کمیشن حکام پر برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیئے کہ ’ٹرانسفر اتھارٹی آپ کے پاس ہے مگر آپ ریکارڈ کیسے منگوا رہے ہیں؟، آپ نے تینوں کیسز کا ریکارڈ منگوا لیا ہے، کس بنیاد پر آپ نے ٹربیونل کا ٹرانسفر کیا؟ سوچ سمجھ کر بحث کیجئے گا، جو ڈیفنڈ کرسکتے ہیں وہی ڈیفنڈ کریں، مجھے ان کے اختیارات کا بھی پتہ ہے اور اپنے اختیارات کا بھی معلوم ہے، پاؤں پر کلہاڑی مارنی ہے تو بتائیں؟ میں ابھی فیصلہ معطل کر کے ریکارڈ واپس منگوا کر ٹریبونل بحال کر دیتا ہوں جو مقصد حاصل کرنا چاہ رہے ہیں وہ میں نہیں ہونے دوں گا‘۔ اس موقع پروکیل درخواستگزار شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’استدعا ہے عدالت الیکشن کمیشن کا آرڈر معطل کرے‘، اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’اسلام آباد کے تینوں حلقوں سے متعلق کارروائی آگے بڑھانے سے روک دیتا ہوں، میں کارروائی آگے بڑھانے سے روک رہا تھا لیکن پھر آرڈر معطل کر دیتا ہوں، اس کا فائدہ تو دوسرے فریقین اٹھا رہے ہیں جنہوں نے جواب جمع نہیں کروایا‘، اس کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی دارالحکومت کے تینوں حلقوں میں مبینہ دھاندلی کیسز پر بنائے گئے نئے الیکشن ٹریبونل کو کام سے روک دیا۔ شعیب شاہین ایدووکیٹ نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اپلیٹ ٹریبونل جج نے تو ایسا کوئی آرڈر جاری ہی نہیں کیا تھا، اپیلیٹ ٹریبونل نے ان کو کئی مواقع دیئے ان سے جواب مانگا مگر انہوں نے جواب جمع نہیں کرایا، اپلیٹ ٹریبونل نے تو ان سے فارم 45 اور بیان حلفی جمع کرنے کا کہا تھا، الیکشن ٹریبونل کے نوٹسسز پربھی انہوں نے جواب ہی جمع نہیں کرایا، عدالت نے فریقین کو ڈیڑھ ماہ کا وقت دیا لیکن جواب جمع نہیں کرایا گیا، یہ جان بوجھ کر تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں، جواب جمع نہیں کروا رہے لیکن کہہ رہے ہیں کہ جج صاحب متعصب ہو گئے‘، ن لیگی رکن قومی اسمبلی راجہ خرم نواز کے وکیل نے کہا کہ ’ہم نے جواب جمع کرایا ہے‘، جس پر عدالت نے نقطہ اٹھایا کہ ’آپ نے تو کہا ہے کہ آپ کو سننے کا موقع نہیں دیا گیا تو پھر جواب کیسے جمع کرایا گیا؟‘۔ وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ’ان کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ ٹریبونل کے جج معتصب ہیں، ہم پر اعتراض تھا کہ یہ وکیل ہیں ان کو فیور ملے گی اور جب الیکشن ٹریبونل جج نے کہا جعلی بیان حلفی دیا تو جیل بھیجوں گا، انہوں نے بس وہ جملہ سن لیا اور بھاگ گئے حالاں کہ یہ بات تو سب کے لیے تھی مگر اس آبزرویشن کے بعد یہ جواب نہیں دے رہے‘، چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ ’اگر میرے جج پر الزامات لگیں گئے تو عدالت اس کو سنجیدہ لے گی، درخواست میں جج کے متعلق nepotism اور favouritism کے الزامات لگائے گئے جنہوں نے جج کے معتصب ہونے کا الزام لگایا ہے میں ان کو توہین عدالت کا نوٹس کیوں نہ جاری کروں؟‘۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’جج سے متعلق توہین آمیز زبان استعمال کی گئی، اپنے فائدے کے لیے آپ ایک جج پر اس طرح کے الزام لگا رہے ہیں، اگر یہ الزامات غلط ہوئے تو اس کے نتائج معلوم ہیں رکن اسمبلی کو؟ وہ پانچ سال کے لیے نااہل ہوں گے، اگلی سماعت پر انجم عقیل خان خود عدالت میں پیش ہو، آئندہ سماعت تک نئے الیکشن ٹریبیونل کو کارروائی سے روک رہے ہیں

ای پیپر دی نیشن