عظیم دن اور عظیم ہیرو

عظیم دن اور عظیم ہیرو

محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں اکثر اپنی گفتگو، تحریروں اور تقاریر میں خود اپنا ایک شعر استعمال کرتے ہیں جو ان کے حسبِ حال بھی ہے....
گزر تو خیر گئی ہے تری حیات قدیر
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
یہ شعر مجھے ایک معاصر اخبار میں اس کے گروپ ایڈیٹر کے دو قسطوں پر مشتمل کالم پڑھ کر یاد آیا ہے جو 29 اور 30 مئی کو عین یوم تکبیر کے موقع پر شائع کیا گیا ہے۔ کوفیوں کا ایک گروہ آج بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے اگرچہ ڈاکٹر خان کے خلاف بے بنیاد الزامات کی مہم شروع کرنے کے بانی جنرل پرویز مشرف ان دنوں خود مختلف مقدمات میں گرفتار ہو کر جیل میں ہیں لیکن جنرل مشرف کے دور میں بے پناہ مالی مفادات سمیٹنے والے آج بھی اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں اور وہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے خلاف بے سروپا الزام لگانے میں کوئی شرم محسوس نہیں کر رہے۔ حالانکہ الزام لگانے والوں کو بھی خبر ہے کہ یہ سب الزامات جھوٹے ہیں اور یہ بھی کہ ان الزامات سے خوشی صرف امریکہ، یہودیوں اور بھارت کے حکمرانوں کو ہوتی ہے۔ یہ حقیقت بھی سب کو معلوم ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو ہیرو کسی اخباری پروپیگنڈے کے ذریعے نہیں بنایا گیا بلکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو قومی ہیرو ان کے سائنسی کارناموں نے بنایا۔ معلوم نہیں کہ معاصر اخبار کے گروپ ایڈیٹر کا ہدف پیشہ صحافت سے منسلک وہ افراد کون ہے جنہوں نے اپنی قیمت لے کر ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے حق میں تشہیری مہم شروع کی اور پھر انہیں پاکستانی ایٹم بم کا خالق ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کا ذکر بعد میں کرتے ہیں۔ پہلے ذکر ہو جائے اس کم ظرفی اور بدباطنی کا جس کا مظاہرہ معاصر اخبار کے کالم نگار نے آبروئے صحافت ڈاکٹر مجید نظامی کے حوالے سے کیا ہے۔ ساری پاکستانی قوم جانتی ہے کہ جب ایٹمی دھماکے کرنے کی بابت اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف ابھی تذبذب میں تھے تو مجید نظامی نے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی اپنی روایت پر عمل کرتے ہوئے یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ نواز شریف صاحب آپ ایٹمی دھماکہ کر دیں ورنہ یہ قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی۔ ایس ایم ظفر اور گوہر ایوب نے بھی اپنی کتابوں میں یہ واقعہ تحریر کیا ہے کہ جب ایوان اقتدار میں ابھی ایٹمی دھماکے کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے غور و فکر کا عمل جاری تھا اس وقت مجید نظامی صاحب نے ایڈیٹرز میٹنگ میں کہا تھا کہ اگر نواز شریف نے ایٹمی دھماکوں کے حق میں فیصلہ نہ کیا تو قوم ان کا دھماکہ کر دے گی۔ صحافتی ساکھ سے محروم کالم نگار نے لکھا ہے کہ مجید نظامی صاحب نے جب نواز شریف کے روبرو یہ جملہ کہا تھا اس وقت چاغی میں ایٹمی دھماکے کی تمام تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں لیکن مجید نظامی آج تک یہ سمجھتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے ان کی دھمکی سن کر کئے گئے۔ سوال یہ ہے کہ اگر نواز شریف ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے تمام تیاریاں مکمل کروا چکے تھے تو وہ سینئر ایڈیٹرز کی میٹنگ کا اہتمام کرکے ان سے مشورہ کیوں طلب کر رہے تھے۔ ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ تو آخری دن بھی واپس لیا جا سکتا تھا۔ اس ماحول میں مجید نظامی نے اپنے دبنگ لہجہ میں قوم کے جذبوں کی بھرپور ترجمانی کرتے ہوئے یہ تاریخی جملہ کہا تھا ”میاں صاحب آپ دھماکہ کر دیں، نہیں تو آپ کا دھماکہ ہو جائے گا۔“ بہرحال نواز شریف نے مشاورت کے بعد ایٹمی دھماکے کرنے کا حکم دیا۔ یہ ایک جرات مندانہ اور قومی مفادات کے حق میں فیصلہ تھا جس پر نواز شریف بھی خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔ اس کے بعد میاں نواز شریف نے مجید نظامی کو خود چاغی سے فون کرکے مبارکباد دی اور نشانِ پاکستان کا اعزاز بھی دیا جو ڈاکٹر قدیر کو دیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نواز شریف تک جس جس حکمران نے بھی پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کیا ہے وہ سب لائق تحسین ہیں۔ پاکستان ایٹم بم بنانے کی صلاحیت 1998ءسے بہت سال پہلے حاصل کر چکا تھا لیکن یہ اعزاز نواز شریف سے نہیں چھینا جا سکتا کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں تمام تر عالمی دباﺅ مسترد کرکے ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا اور قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ لیکن پاکستان کی تاریخ میں یہ منفرد مقام حاصل کرنے والے وزیراعظم کے ساتھ اقتدار کی ہوس میں مبتلا فوجی جرنیلوں نے کیا سلوک کیا۔ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا انتہائی موثر انداز میں جواب دے کر نواز شریف نے جس قومی غیرت کا مظاہرہ کیا تھا۔ کیا اس کا صلہ یہ دیا گیا کہ صرف ایک سال بعد نواز شریف کی حکومت کا تختہ ایک ریٹائرڈ فوجی جنرل نے الٹ دیا۔ پھر اسی جنرل پرویز مشرف نے پاکستانی ایٹم بم کے خالق محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو بھی سزا اور تذلیل کے ذلت آمیز عمل سے گزارا۔ لیکن جس طرح ایٹمی دھماکے کرنے کے فیصلہ کے اعزاز کو نواز شریف سے نہیں چھینا جا سکتا اسی طرح کوئی کالم نگار اور صحافی اپنی تحریروں سے ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے اس مقام اور احترام میں کمی واقع نہیں کر سکتا جو قوم کے دلوں میں ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے لئے موجود ہے۔
ہمارا پاکستانی ایٹم بم بنانے کے مختلف مراحل میں جن بھی سائنسدانوں نے جو جو کردار ادا کیا ہے۔ وہ سارے سائنسدان ہمارے ہیرو ہیں۔ لیکن ایٹم بم بنانے میں جو کردار ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کا ہے اس اعتبار سے وہ تمام سائنسدانوں میں ہمارے لئے سب سے زیادہ قابل احترام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کی واحد شخصیت ہیں جنہیں حکومت پاکستان کی طرف سے دو مرتبہ نشان امتیاز سے نوازا گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہمارے ایک عظیم قومی ہیرو ہیں۔ یوم تکبیر کو کبھی بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خاں سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ عظیم دن کی یادیں کبھی ڈاکٹر خان کے باوقار انداز میں ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتیں۔ اس طرح پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کی کہانی جتنی بار بھی لکھی جائے گی اور جتنے لوگ بھی لکھیں گے وہ مجید نظامی صاحب کا یہ تاریخی جملہ ضرور دہرائیں گے کہ ”میاں صاحب آپ ایٹمی دھماکہ کر دیں۔ نہیں تو یہ قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی، میں آپ کا دھماکہ کر دوں گا“

محمد آصف بھلی ....چوتھا ستون

ای پیپر دی نیشن