نااہلی کی داستان

Jun 02, 2013

اثیر احمد خان

نااہلی کسی بھی سطح پر ہو اسکے اثرات سے ہمےشہ بدترےن نتائج مرتب ہوتے ہےں۔ قانونی تقاضوں کو پورانہ کرنا اور اپنے فرائض سے غفلت برتنا دونوں نااہلی کے زمرے مےں آتے ہےں۔ اہل کاروں کی بھرتےوں سے لے کر کسی ادارے کے سربراہ کی تعےناتی تک اگر قانونی تقاضوں کو اہمےت نہ دی جائے اور مےرٹ کو نظر انداز کےاجائیگا تو اس سے اداروں کی کارکردگی پر بڑا منفی اثرپڑتا ہے۔ جب ہم تمام اداروں کی موجودہ کارکردگی پر نظر ڈالتے ہےں تو فوج اور عدلےہ کو چھوڑکر باقی صورتِ حال اُمےد افزا دکھائی نہےں دےتی۔ کس کس ادارے کا نام لےں۔ رےلوے، پی آئی اے، نڑاسپورٹ اتھارٹی اور انرجی سےکٹر، غرض ہر جانب نااہلی کی داستانوں کی اس قدر بہتات ہے کہ ےہ سلسلہ ختم ہونے مےں نہےں آتا۔ نااہلی کی داستانوں مےں ہمارے سامنے تازہ ترےن مثال نےب کے چےئرمےن کی معطلی ہے۔ کےونکہ ان کی تقرری نےب کے آرڈےننس 6 کیخلاف کی گئی تھی اس لےے عدلت کو انھےں معطل کرنا پڑا۔ اگر انکی تعےناتی مےں آئےنی تقاضوں کو پورا کےا جاتا تو پھر وہ ےہ استداد کرنے مےں حق بجانب ہوتے کہ انھےں ائےنی طرےقے سے ہٹاےا جائے۔
بطور چےئرمےن نےب فصےح بخاری نے مکمل طورپر جانبدار ی دکھائی اس لےے ان پر توہےنِ عدالت کا کےس فائل ہوا۔ فصےح بخاری کے دورمےں جو سب سے بڑی تبدےلی ہمےں نظرآئی وہ ےہ تھی کہ نےب کے ادارے کا تاثر کرےشن دوست ادارے کے طور پر اُبھر کر سامنے آےا۔ انھوں نے اپنی مدتِ ملازمت کے دوران کسی حکومتی کارندے کیخلاف کسی کےس کی انکوائری مکمل ہی نہےں ہونے دی۔ اگر فصےح بخاری کےس دبانے کی روش اختےار کرنے کی بجائے اپنی کارگردگی سے عدالتِ عظمیٰ کو مطمئن کرنے مےں کامےاب ہوتے تو ہو سکتا ہے کہ عدالت انھےں کچھ چھوٹ دےنے پر غور کرتی۔ ےہ ہماری ذاتی رائے ہے اس سے اتفاق کرنا ضروری نہےں ۔
ہمارے ہاں مختلف محکموں مےں رےٹائرڈ لوگوں کو تعےنات کرنے کا عام رجحان پاےاجاتا ہے اس قسم کی تقررےوں کے پسِ پردہ نےک نےتی ےہ ہوتی ہے کہ ان لوگوں کے تجربات سے فوائد حاصل کےے جا سکےں۔ اس کے علاوہ منظورِ نظر لوگوں کو نوازنے کیلئے بھی ےہی طرےقہ اختےار کےا جاتا ہے۔ اس سلسلے مےں ہماری گزارش ےہ ہے کہ رےٹائرڈ لوگوں کو اسی ادارے مےں تعےنات کےا جانا چاہےے جس کا وہ تجربہ رکھتے ہےں اےسا کرنے سے ہی بہتر نتائج برآمد کےے جا سکتے ہےں۔
فصےح بخاری سے پہلے سےددےدارشاہ کی تقرری کو بھی سپرےم کورٹ نے کالعدم قرار دے دےا تھا۔ لےکن حکومت نے عدالتی احکامات کو نظرانداز کرنے کا تحےہ کر رکھا تھا۔ اسکی اےک اور مثال ےوں ہے کہ گزشتہ حکومت نے اپنے اےک نااہل وزےراعظم کی برطرفی کے بعد دوسرے نااہل شخص کو وزےراعظم بنادےا جس پر کےس عدالت مےں زےرِ سماعت تھا۔ اسے تارےخ مےں اپنی نااہلی کو تسلےم کرنے کی بجائے ڈےٹھائی سے اس پر قائم رہنے کی شاندار مثال کے طور پر ےاد رکھا جائے گا۔
ہمارے ہاں عوام کو اندھےرے مےں رکھنا تو معمول کی بات بن گئی ہے۔ اب تو سےنٹ کی قائمہ کمےٹی کوبھی گمراہ کرنے سے گرز نہےں کےا جارہا۔ قائمہ کمےٹی کو بتاےا جارہا ہے کہ صرف دس گھنٹے کی لوڈشےڈنگ کی جا رہی ہے۔ جبکہ حقےقت مےں صرف چند گھنٹوں کیلئے برقی رو بحال کی جا رہی ہے۔ اس طرح بعض علاقوں مےں لوڈشےڈنگ کا دورانےہ 18 گھنٹے سے بھی زےادہ بنتا ہے۔ اس مےں کوئی شک نہےں ہونا چاہےے کہ توانائی کا بحران نااہلی کی منہ بولتی تصوےر بن گےا ہے۔ نااہلی کی انتہا ےہ ہے لوڈشےڈنگ ےکساں طور پر نہےں کی جا رہی ۔ بعض مخصوص علاقوں اور جگہوں کو لوڈشےڈنگ سے مستثنیٰ قرار دےاگےا ہے۔
قائمہ کمےٹی کی ےہ تجوےز قابلِ ستائش ہے کہ وزےراعظم ہاﺅس سمےت پورے ملک مےں لوڈشےڈنگ کو ےکساں کےا جائے اگرچہ ےہ تجوےز دےر سے آئی مگر درست آئی ہے۔ ہم بھی جسارت کرتے ہوئے حکام بالا تک اپنی اےک تجوےز پہنچانا چاہتے ہےں کہ کم ازکم ہسپتالوں کو لوڈشےڈنگ سے استثنیٰ حاصل ہونا چاہےے۔ اوراگر ممکن ہو تو نماز کے اوقات کے دوران برقی رو کو بحال رکھا جائے تاکہ نمازی حضرات باآسانی فرےضہ نماز ادا کر سکےں۔ سننے مےں آتا ہے کہ شہر کے گنجان آباد علاقوں کی مساجد مےں وضو کیلئے پانی بھی دستےاب نہےں ہوتا اس لےے نمازی حضرات کو گھرسے وضو کرکے آنے کیلئے کہا جاتا ہے۔
قارئےن نااہلی کی داستان ختم تو کےا ہوگی ابھی تو اس کے انڑول تک پہنچنا بھی محال لگ رہا ہے۔ جےسا کہ پہلے بےان کےاگےا ہے کہ مساجد مےں وضو کیلئے پانی نہےں ہوتا اور دوسری جانب نندی پور پاور پراجےکٹ کی مشےنری کراچی بندرگاہ پر پڑی گل سڑ رہی ہے جسے کئی برس سے پراجےکٹ پر منتقل ہی نہےں کےا جاسکا۔ اس تاخےر اورمجرمانہ غفلت کی وجہ سے اس منصوبے کی لاگت 23 ارب سے بڑھ کر 57 ارب ہوچکی ہے۔ جسٹس اعجاز چودھری نے درست فرماےا کہ عوام لوڈشےڈنگ سے مررہے ہےں اور سےکرٹری خزانہ اور سےکرٹری پانی وبجلی کے پاس آپس مےں مےٹنگ کرنے کیلئے وقت ہی نہےں ہے۔ اس مجرمانہ غفلت کا ذمہ دارکون ہے؟ اس کے ذمہ داروں کا تعےن کرنا ابھی باقی ہے۔ قائمہ کمےٹی کی سادہ کا اندازہ لگانے کیلئے ےہ بات کافی ہے کہ وہ گمراہ کرنے والوں کو معطل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہےں۔ گوےا مجرموں کی معطلی کوہی ان کی سزا تصور کر لےا گےا ہے۔ ہماری نظر مےں اس سے زےادہ سادگی کی انتہا اور کےا ہوگی ۔ البتہ عدالتِ عظمیٰ مےں جرات مندی کا مظاہرہ دےکھنے مےں آےا ہے جب دورانِ سماعت جسٹس اعجاز چودھری نے اےڈےشنل سےکرٹری خزانہ سے کہا کہ آپ جےسے لوگوں کو تو جےل بھےج دےنا چاہےے۔
نااہلی کی اس داستان مےں وہ دن بڑا ہی سوگوار اور خون کے آنسو رولا دےنے والا تھا جب گزشتہ دنوں گجرات مےں اےک سکول وےن کے حادثے مےں معصوم بچوں نے جامِ شہادت نوش کےا۔ کسی حادثے مےں جان دےنے والے بھی شہےد ہوتے ہےں۔ اگر ٹرانسپورٹ سےکٹر اور سی اےن جی مالکان سے پڑھے لکھے اور باشعور لوگ وابستہ ہوتے تو حادثے کے فوراََ بعد کچھ اس طرح کے بےانات سامنے آنے چاہےں تھے کہ ڈرائےور حضرات کہتے کہ وہ آئندہ کسی ناقص وےن کو نہےں چلائےں گے۔ اور سی اےن جی مالکان کابےان آتاکہ کہ وہ آئندہ کسی ناقص گاڑی کو سی اےن جی مہےا نہےں کی جائیگی مگر افسوس اتنے بڑے حادثے کے بعد بھی کسی جانب سے اس طرح کے حسنِ اخلاق کا مظاہرہ دےکھنے مےں نہےں آےا۔ تاحال حادثے کے ذمہ داروں کا تعےن ہی نہےں کےا جاسکا۔ البتہ اےک دوسرے پر ذمہ داری ڈالنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ہم اُمےد کرتے ہےں کہ مسٹر کھوسہ کا تجربہ اور نوازشرےف کی قائدانہ صلاحےت دونوں مل کر عوام کو حقےقی معنوں مےں رےلےف پہنچانے مےں ضرور کامےاب ہوں گے۔

مزیدخبریں