خود ساختہ سیاسی پنڈت اور ان کی لگاتار پیشن گوئیاں

ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں جب کبھی ایک جمہوری حکومت آتی ہے تو ملک بھر میں ہمارے سیاسی پنڈت، جو مارشل لاءکے زمانے میں زبانیں بند کئے کونے کھنڈروں میں چھپے ہوتے ہیں ایک دم سے برساتی مینڈکوں کی طرح امنڈ آتے ہیں اور اس حکومت کی زندگی کے دن گننا شروع کر دیتے ہیں۔ اور اپنے زور دور بینی اور غیب دانی کے علم پر حکومت جانے کی تاریخیں دینے لگتے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کا جب زمانہ تھا تو تمام سیاسی اور غیر سیاسی پنڈت، منقار زیر پر رہے کہ کوئی کہ نہیں سکتا تھا کہ یہ بلا کب ٹلے گی۔ کہ ایسی بلا اپنی مرضی سے آتی ہے تو اپنی مرضی سے جاتی ہے یہ تو جنرل پرویز مشرف کی اپنی ہی نادانی ٹھہری یا اللہ کو ہی ایسے ہی منظور تھا کہ وہ خود ہی بھیڑوں کے چھتے کو چھیڑ بیٹھے جس کی پاداش میں انہیں یہاں سے رفو چکر ہونا پڑا۔ ان کے بعد ایک دفعہ پھر جمہوریت کو موقع ملا اور ایک جمہوری حکومت کی باری آئی اور پیپلز پارٹی کے قائم مقام سربراہ آصف علی زرداری برسر اقتدار آئے تو یہ پنڈت شدت سے متحرک ہو گئے اور طرح طرح کی فالیں نکالنے میں فعال ہو گئے۔ اور اس حکومت کو وقت سے پہلے جانے کی تاریخیں دینے لگے یہ تو آصف علی زرداری ہی کی پرکاری یا ہوشیاری تھی۔ کہ وہ ان تمام تر پیشن گوئیوں اور یادہ گوئیوں کے بوجھ تلے، اپنے دور اقتدار کی پوری معیاد نکال گئے۔
اور اب جب کہ ایک بار پھر مسلم لےگ ن کے سربراہ میاں نواز شرےف انتخابات میں واضح اکثریت لے کر برسر اقتدار آئے ہیں اور جمہوریت کی گاڑی کو رواں دواں رکھنے کے لئے کشاں کشاں کوشاں ہےں ان کے تو حلف برداری کے دن سے ہی ان پنڈتوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ یہ حکومت اب گئی کہ اب ۔ یا زیادہ سے زیادہ اسے ایک سال ہی دے پا رہے تھے اور اب جب کہ وہ ایک سال بڑے فعال انداز میں نکال گئی ہے تو وہ اسے مزید ایک سال یا چھ ماہ دینے پر مجبور ہیں لیکن میاں نواز شرےف کے سابقہ ریکارڈ کو دیکھ کر یہ دھڑکا ضرور لگا رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے۔
میاں نواز شرےف کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ عمران خان اور اس کی جماعت تحریک انصاف سے ہے اور خدشہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان دن بدن بڑھتی ہوئی محاذ آرائی کہیں ایک بار پھر جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا سبب نہ بن جائے عمران خان کا سٹینڈ اب یہاں یہ ہے کہ وہ2013ءکے انتخابات اور ان کے نتیجے میں بننے والی نواز شرےف کی حکومت کو تسلیم کرتے ہیں لیکن انتخابات میں ہونے والی دھاندلی (اگر ثابت ہو جائے تو) کو تسلیم نہیں کرتے۔
لہٰذا انہوں نے یہ مطالبہ کر رکھا ہے کہ ان کے بتائے ہوئے صرف چار حلقوں میں اس کی پڑتال کرالی جائے۔ اور دھاندلی ثابت ہو جائے تو دھاندلی کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ اور آئندہ کے لئے الیکشن کمیشن اور الیکشن قوانین کو اس قدر، خودمختار اور مضبوط بنا لیا جائے کہ مستقبل میں ایسا کچھ دہرایا نہ جا سکے اور ہم یہاں سمجھ نہیں پا رہے۔ کہ حکومت وقت کو اس سے کیا اختلاف ہے یا ہو سکتا ہے بات بہت معقول ہے ایسا اگر کر دیا جائے تو اس پر کسی کو کیا اختلاف ہو سکتا ہے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ میاں نواز شرےف اور اس کی حکومت تحریک انصاف سے مل کر قومی اسمبلی میں ایسا الیکشن کمشن اور انتخابی قوانین اور طریق کار وضع کرے کہ آئندہ کبھی کسی دھاندلی یا کسی کی غلط کاری کا امتحان نہ رہے۔ مسلم لےگ ن پہلے ہی اپنی پیش رو پیپلز پارٹی کی حکومت سے مل کر آٹھویں ترمیم کے نام پر ایک ترمیم لا چکی ہے اب تحریک انصاف سے مل کر ایسا ہی کچھ کرے دے تو اس میں کیا حرج ہے۔ ہم عمران خان اور تحریک انصاف سے بھی درخواست کریں گے۔ کہ وہ بھی حتی الوسع یعنی جہاں تک ممکن ہو سکے۔ وہ بھی دھرنوں اور ریلیوں کی تکرار سے گریز کریں کہ یہ دونوں ملک جس طرح خطرناک صورت حال سے گزر رہے ہیں وہ ایسے کسی انتشار یا خلفشار کا متحمل نہیں ہو سکتا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بگاڑ آگے بڑھتے ہوئے اس مقام پر پہنچ جائے کہ معاملات اس حکومت یا آپ کے ہاتھ سے بھی نکل جائیں۔ معاملات پارلیمنٹ میں طے پا سکیں تو یہ جمہوریت ہی کی فتح ہو گی اور یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن