سُکھ کے سپنے دیکھنے والا شاعر احمد سلیم

پاکستان میں یوں تو کئی شعبے رُوبہ زوال ہیں مگر ادب کا شعبہ وہ خاص شعبہ ہے جو مسلسل ترقی کی جانب گامزن ہے۔ ادیبوں کی اکثریت نے ہمیشہ روشن خیالی کا ثبوت دیتے ہوئے آفاقی نقطہ¿ نظر اپنایا اور خود کو کسی بھی محدود دائرے میں سمیٹے رکھنے سے گریز کیا۔ انہوں نے ہمیشہ جبر اور ظلم کے خلاف آواز بلند کی اور اس کے نتیجے میں سزائیں بھی برداشت کیں مگر اصولوں پر سمجھوتے کی راہ پر نہ چلے۔ انہی روشن خیال اور زندہ ضمیر انسانوں میں احمد سلیم کا نام شامل ہے جو ہر طرح کی نمود و نمائش سے بے پرواہ ہے۔ ان کی زندگی کا محور علم سے دلی محبت ہے۔ یہ محبت انہیں کتاب بینی سے تحریر کی طرف لے آئی ہے۔ وہ ایک تخلیقی آدمی ہے۔ شاعری اس کے اندر رَچی بسی ہے اور وہ خود شاعری میں کھویا ہوا ہے مگر تخلیق کے ساتھ ساتھ تحقیق اور تنقید سے اسے بہت گہرا ربط ہے۔ اب تک اس نے ادب، تاریخ اور سیاسیات پر ڈیڑھ سو سے زائد کتب تحریر کی ہیں۔ ان میں 100 کے قریب مرتب شدہ کتب ہیں جب کہ پچاس سے زائد کتابیں تخلیقی ہیں۔ یہ کوئی عام اور چھوٹا کام نہیں کہ بیک وقت پنجابی، انگریزی اور اردو میں تخلیق اور تنقید و تحقیق کے کاموں میں مصروف رہا جائے۔ اتنا کچھ تخلیق کرنے اور تحقیق لکھنے کے باوجود انہیں کوئی زعم ہے نہ فخر، نہ احساسِ برتری نہ کمتری اور نہ ہی نمبروں کی گیم میں شامل ہونے کا شوق۔ وہ ایک درویش منش انسان ہے اور درویش ہی رہنا چاہتا ہے۔ اگر احمد سلیم کی شخصیت کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ انسانی حقوق کا علمبردار شخص ہے جسے انسان کی غلامی اور استحصال کسی طور گوارا نہیں۔ اس نے عدلیہ کے اہم کیسوں جن میں مختلف جماعتوں کے اہم سیاستدانوں کے کیس شامل ہیں کا اردو میں ترجمہ کر کے ان فیصلوں سے عام لوگوں کو آگاہ کیا۔ اسی طرح وہ جمہوریت نواز ہیں اور ہر طرح کی غیر جمہوری تحریکوں کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ انہوں نے تراجم اور مرتب شدہ کتب کے ذریعے ایک تاریخ رقم کی ہے۔
اس نے اقلیتوں کے حوالے سے جو کام کیا ہے وہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے لوگوں کے درمیان پاکستان میں ایک ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے کیلئے اور انسانوں کے درمیان اخوت اور محبت کو پروان چڑھانے کیلئے یہ ایک نیک مقصد ہے۔ حق تلفی اور زیادتی کسی بھی حصے میں ہو احمد سلیم اس کے لئے نعرہ بلند کرتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ پنجابی ہے مگر اس کی پذیرائی سندھ، بلوچستان اور خیبر پی کے میں بھی اسی طرح ہے۔ وہاں بھی لوگ اسی طرح اُس سے محبت کا دم بھرتے ہیں۔ اسے اپنی آزادانہ فکر کے عوض حاکمِ وقت کی سرزنش کا سامنا رہا۔ کئی بار اس کی نظموں نے اسے جیل کی ہوا کھانے پر بھی مجبور کیا۔ یوں تو اس کی پہچان کے خانے میں کئی تعارف درج ہیں مگر وہ خود کو پنجابی زبان کا شاعر کہلوانا زیادہ پسند کرتا ہے۔ ان کی شاعری خوشی اور شادمانی کی شاعری ہے نہ وصل و فراق کے پرکیف تصورات سے لبریز ہے بلکہ وہ زمینی حقیقتوں سے جُڑی ایسی شاعری ہے جسے ایک بین اور چیخ کہنا زیادہ مناسب لگتا ہے جو دردناک مناظر دیکھ کر ان کی روح محسوس کرتی ہے۔ اس نے پنجابی زبان و ادب کیلئے جو کام کیا ہے اس کی اعلیٰ سطح پر پذیرائی ضرور ہوئی ہے مگر ان کے کلام کو عام لوگوں تک پہنچانے کی کوشش نہیں کی گئی یعنی نصاب سے اسے دور رکھا گیا ہے۔ جب تک احمد سلیم جیسے لوگوں کو نصاب میں شامل نہیں کیا جائے لوگوں کے دلوں سے جبریت کم نہیں کی جا سکے گی۔ احمد سلیم کی ایک خوبصورت نظم ....
تن ساڈا لیراں بن اُڈیا
ولڑی ورقے ورقے
لُوں لُوں صفت سجن دی گاوے
سُولی اُتے چڑھ کے
کنڈیاں اُتے نچدی کُوکاں
ساہواں نوں سُر کر کے
میں تاں رانجھن یار منایا
سِیس تلی تے دھر کے
پچھلے دنوں پِلاک میں ان کے ساتھ ایک خصوصی شام کا انعقاد کیا گیا جس میں شہر کی نمایاں ترین علمی و ادبی شخصیات نے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ احمد سلیم جگر کے شدید مرض میں مبتلا تھا، بھلا ہو مشتاق صوفی کا جن کی صلاح پر پرویز رشید نے پنجاب سرکار سے اس کے علاج کیلئے پچاس لاکھ لے کر دیئے اور ایک حساس شاعر کو بے رحم وقت کے حوالے نہیں کیا۔

ای پیپر دی نیشن