لاہور(حافظ محمد عمران)پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر چودھری اختر رسول نے کہا ہے کہ یہ ایک حادثہ ہے کہ پاکستان ورلڈکپ سے باہر ہوا ہے اور اس کی کوئی ایک نہیں بلکہ کئی وجوہات ہیں۔ ہم نے ایشیئن گیمز کے لیے کھلاڑیوں کے نام پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کو بھجوادئیے ہیں، ٹیم ایشیئن گیمز میں شرکت کرے گی۔ ہاکی کے لیے ہر سال بجٹ میں 50کروڑ روپے مختص کرنے کے لیے سمری وزیراعظم کو بھیج دی ہے۔وہ وقت نیوز کے پروگرام ’’گیم بیٹ‘‘ میں اظہار خیال کررہے تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ ہم 1960سے لیکر 1984تک ہاکی کی دنیا پر حکمرانی کرتے رہے، دوسری قومیں ہم سے ہارتی رہیں، اُس وقت ہماری جیت کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ اُس وقت ہاکی کو ترجیح دی جاتی تھی، ڈیپارٹمنٹ کھلاڑیوں کو سپانسر کرتے تھے، نوکریاں دیتے تھے، آج سہیل عباس اور شکیل عباسی جیسے کھلاڑیوں کو بارہ بارہ سال کھیل کربھی نوکری نہیں ملتی۔ نوکریاں نہ ملنے سے کھلاڑی دلبرداشتہ ہوئے ہیں، نئے کھلاڑی آنا بند ہوگئے ہیں، کالج یونیورسٹی کی سطح سے پڑھا لکھا کھلاڑی نہیں آرہا۔ شہباز سینئر کے بعد کوئی ورلڈ کلاس کھلاڑی سامنے نہیں آسکا۔ اُنھوں نے کہا کہ ہاکی میں کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لیے ڈیپارٹمنٹ ہاکی کو زندہ کرنا ہوگا۔ ہم نے جونئیر لیول پر سٹرکچر کی ازسر نو تنظیم کا آغاز کردیا ہے۔ سینئر ٹیم کے لیے 47لڑکے منتخب کیے گئے ہیں جو اُن لوگوں کے ذریعے کیے گئے ہیں جو کبھی ہم سے ناراض تھے۔ ہم پاکستان ہاکی کے لیے اُن سب کو منا کر فیڈریشن میں لائے ہیں۔ چودھری اختر رسول نے کہا کہ ہم نے آج ہاکی سلیکشن کمیٹی کو بالکل آزاد بنادیا ہے، ماضی میں سلیکشن کمیٹی کبھی آزاد نہیں رہی، اسی طرح ٹیم مینجمنٹ کو بھی مکمل فری ہینڈ دے دیا ہے۔سابق اولمپئین اور قومی ہاکی ٹیم کے سابق کوچ و منیجر خواجہ ذکا ء الدین نے کہا کہ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ہاکی میں پاکستان اس مقام پر پہنچ جائے گا، ورلڈ کپ سے قومی ٹیم کے اخراج کی بے حد تکلیف ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہاکی کے حلقوں میں اس نقصان کا کوئی احساس ہے اور نہ ہی شرمندگی پائی جاتی ہے۔ ہاکی اب ہمارے ہاں کہیں ہوتی ہی نہیں۔ نیا ٹیلنٹ سامنے نہیں آرہا۔ اس وقت کیمپ میں وہی لڑکے ہیں جو کئی برس سے کھیل رہے ہیں اور مسلسل ہارتے آرہے ہیں۔ اُنھیں جیت کے نشے کا پتہ ہی نہیں۔ ہاکی کے کھیل میں واپسی کے لیے اب ایشیئین گیمز بہت اہم ہیں۔ اس ٹورنامنٹ میں کامیابی ہی ہماری ہاکی کو مکمل تباہی سے بچاسکتی ہے۔ مگر اس ٹورنامنٹ میں ہم پر دبائو بہت زیادہ ہوگا۔ یہ ہیڈ کوچ اور ٹیم انتظامیہ کے لیے بھی بہت بڑا امتحان ہوگا۔ خواجہ ذکاء الدین نے کہا کہ ہاکی پلئیرز کی ملازمتوں کے بارے میں کافی عرصہ سے سُنتے آرہے ہیں مگر اب تک عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا۔