وزیر خیبر پی کے علی امین گنڈاپور کی پارٹی رکنیت معطل‘ گرفتاری دیدی‘ میاں افتخار کیخلاف ایف آئی آر واپس مقدمہ کیلئے دباﺅ ڈالا گیا تھا : والد مقتول

Jun 02, 2015

ڈی آئی خان (نوائے وقت رپورٹ) صوبائی وزیر خیبر پی کے علی امین گنڈاپور نے گرفتاری دیدی۔ ڈی پی او صادق کے مطابق پولیس نے علی امین گنڈاپور کے گھر کا محاصرہ ختم کر دیا۔ علی امین کو محفوظ مقام پر رکھا جائیگا۔ نجی ٹی وی کے مطابق علی امین اپنی ذاتی گاڑی میں پولیس کے ساتھ روانہ ہوئے جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ڈیرہ اسماعیل خان میں بلدیاتی الیکشن کے دوران صوبائی وزیر علی امین گنڈا پور کی مداخلت کا نوٹس لے لیا ہے۔ انہوں نے ان کی پارٹی کی بنیادی رکنیت معطل کردی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عمران خان نے بلدیاتی الیکشن کے دوران صوبائی وزیر بلدیات علی امین کی جانب سے پریذائیڈنگ افسروں پر دباﺅ اور دھاندلی کرنے پر ان کی پارٹی کی بنیادی رکنیت معطل کرتے ہوئے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی۔ عمران خان نے کہا ہے کہ تحریک انصاف نے ملک میں دھاندلی اور شفاف الیکشن کیلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ تحریک انصاف کا منشور ہے کہ ملک میں صاف و شفاف الیکشن کرائے جائیں تا کہ ملک میں جمہوریت اور لوگوں کو انصاف مہیا ہو سکے۔ سینئر صوبائی وزیر بلدیات کے بلدیاتی الیکشن کے دوران اثرانداز ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اور کہا کہ پارٹی میں ایسے افراد کی کوئی جگہ نہیں جو پارٹی پالیسیوں اور جمہوریت کےخلاف سوچ رکھتے ہوں۔ دوسری جانب علی امین گنڈا پور نے بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھ پر لگائے گئے الزامات غلط ہیں۔ الزامات ثابت ہو گئے تو استعفیٰ دے دوں گا۔ میرے خلاف میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے۔ قبل ازیں پولیس نے ان کے گھر کا کئی گھنٹے محاصرہ کئے رکھا، ان کی رہائش گاہ کے باہر پی ٹی آئی کے کارکن موجود تھے جنہوں نے نعرے بازی کی۔ صوبائی وزیر اطلاعات مشتاق غنی نے کہا تھا کہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے علی امین کو گرفتاری دینے کیلئے کہا خیبر پی کے میں قانون سب کے لئے برابر ہے۔ اس سے قبل ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں آئی جی خیبر پی کے ناصر خان درانی نے صوبائی وزیر علی امین گنڈا پور کو گرفتار کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ علی امین گنڈا پور کو فوری طور پر گرفتار کر لیا جائے، میں قانون پر عمل کروں گا۔ جرم کرنے والے کا تعلق چاہے جس پارٹی سے بھی ہوا اسے قانون کے کٹہرے میں پیش ہونا ہو گا۔ علی امین گنڈا پور پر بیلٹ باکس گاڑی میں لے جانے اور سیاسی مخالفین کو دھمکیاں دینے کا الزام ہے۔
نوشہرہ + پشاور (نیوز ایجنسیاں + نوائے وقت رپورٹ+ نیشن رپورٹ ) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور سابق صوبائی وزیر میاں افتخار حسین کو قتل کے مقدمہ میں جوڈیشل مجسٹریٹ نوشہرہ شیراز صادق کی عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ عدالت نے میاں افتخار کی درخواست ضمانت مسترد کرکے ریمانڈ میں ایک روز کی توسیع کردی، دوران سماعت جاں بحق نوجوان حبیب اللہ کے والد شیر عالم خان نے 164سی آرپی سی کے تحت اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے مو قف اختیار کیا کہ انہوں نے میاں افتخار کے خلاف قتل کا کوئی دعویٰ دائر نہیں کیا۔ میاں افتخار حسین پر مقدمہ درج کرانے کیلئے ان پر دباﺅ ڈالا گیا تھا بیٹے کے قتل میں اے این پی کے رہنما اور گارڈ ملوث نہیں ہیں۔ میاں افتخار حسین کی جانب سے سینئر وکیل عبدالطیف آفریدی نے عدالت پیش ہو کر استدعا کی کہ جاں بحق نوجوان کے والد نے بھی میاں افتخار کے خلاف کوئی دعویٰ دائر نہ کرنے کا بیان دیا ہے۔ اس لیے میاں افتخار کا نام ایف آئی آر سے خارج کیا جائے اور اسے ایف آئی آر کے خانہ نمبر دو میں ڈالا جائے اور میاں افتخار کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔ تاہم عدالت نے میاں افتخار کے ریمانڈ میں ایک روز کی توسیع کر دی، علاوہ ازیں میاں افتخار کو پولیس ریسٹ ہاﺅس رکھا جائے گا اور پولیس ریسٹ ہاﺅس کو سب جیل کا درجہ دیا گیا ہے۔ دوران سماعت میاں افتخار حسین نے کہا کہ میں کسی کے قتل کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ سماعت کے بعد میاں افتخار حسین کا میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ میں قتل کے واقعہ سے واقف نہیں ہوں اور یہ کہنا کہ قتل میرے اشارے پر ہوا یہ بالکل غلط ہے میں ایک شہید بیٹے کے باپ کی حیثیت سے اس درد کو جانتا ہوں کہ اگر کسی کا بیٹا قتل ہوا ہے تو وہ میرا ہی بیٹا ہے اور اس کے بیٹے کا قاتل میرے بیٹے کے قاتل کے برابر ہے میں بھر پور کوشش کروں گا کہ قاتل کو سامنے لاﺅں اور اسے قرارواقعی سزا ملے جب جلوس کے سامنے فوج اور پولیس بے بس نظر آئی تو مقتول کے والد نے فرشتہ بن کر مجھے بچایا، گذشتہ روز عدالت میں مقتول لڑکے کے والد نے بیان دیا کہ میاں افتخار میرے بزرگ ہیں اور بڑے ہیں اور میری ان پر کوئی دعوےداری نہیں ہے۔ جس شخص نے میرے بیٹے کو مارا ہے اس پر دعوےداری ہے اور اس کو سزا ملے تو مجھے خوشی ہو گی۔ میاں افتخار کا کہنا تھا کہ عمران خان کو چاہیے کہ وہ اپنی حکومت سے کہے کہ وہ کیس میں سیاسی مداخلت نہ کرے انتقام کا جذبہ استعمال نہ کرے۔ مقتول کے والد نے پہلے دن بھی یہی بیان دیا اور آج بھی وہی بیان دیا تو پھر کس نے ایف آئی آر میں میرا نام درج کرایا اور کیوں مجھے ملوث کیا گیا کس نے مجھے کیس میں ملوث کیا اس کی تحقیقات ضرور ہونی چاہیے اور عمران خان کو اس بات کا نو ٹس لینا چاہیے کہ اس کی حکومت نے یہ بات کیوں کی، عدالت نے مجھے اور مدعی کو آج (منگل) کو دوبارہ طلب کیا ہے۔ میاں افتخار کا کہنا تھا کہ میں ان تمام لوگوں کا مشکور ہوں جنہوں نے مجھ سے ہمدردی کی ان مےں چاہے آصف علی زرداری ہوں، میاں نواز شریف ہوں، مولانا فضل الرحمٰن ہوں، عمران خان ہوں، چوہدری نثار، رانا ثناءاللہ، پرویز رشید اور دیگر شامل ہیں۔ علاوہ ازیں ق لیگ کے صدر اور سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حیسن نے اے این پی کے لیڈر اور خیبر پی کے کے معروف سیاسی رہنما میاں افتخار حسین کی گرفتاری اور انہیں ہتھکڑی لگانے کو نہایت افسوسناک اور نامناسب قرار دیا ہے۔ شجاعت حسین نے اس بارے میں غلام احمد بلور سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میاں افتخار شریف النفس سیاسی شخصیت ہیں۔ انہیں پہلے قتل کے مقدمہ میں ملوث کر کے گرفتار کیا گیا اور پھر صوبائی روایات سے ہٹ کر انہیں ہتھکڑیاں پہنائی گئیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ میاں افتختار حسین ایک چھوٹے سے الیکشن میں کسی سیاسی ورکر کو جان سے مارنے کا حکم دیں اور اسے قتل کروا دیں۔ علاوہ ازیں وزیراعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک نے کہا ہے مقتول کے والد نے 169 کا بیان دیا ہے کہ میاں افتخار واقعہ میں ملوث نہیں۔ میاں افتخار کی رہائی کا بندوبست کررہے ہیں۔ مدعی کے بیان کے بعد میاں افتخار حسین کیخلاف مقدمہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم سیاسی انتقام پر یقین نہیں رکھتے۔ مقدمے کے اندراج میں میراکوئی عمل دخل نہیں۔ علاوہ ازیں آئی جی خیبر پی کے ناصر درانی نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابق وزیر میاں افتخار حسین کیس میں مکمل انصاف ہوگا۔ اگر پولیس مظاہرے کے دوران میاں افتخار حسین کو حراست میں نہ لیتی تو ان کی جان کو خطرہ ہوسکتا تھا، میاں افتخار حسین کی حفاظت کی خاطر انہیں حراست میں لیا گیا۔ مظاہرین کے ایک گروپ نے میاں افتخار حسین کا نام لکھوایا۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا میاں افتخار کو گرفتار کیا جائے۔ میاں افتخار حسین کی جان کو خطرہ تھا، صورتحال اگر خراب ہوتی تو زیادہ نقصان ہوتا۔ ڈی پی او نے حالات کے مطابق سابق وزیر میاں افتخار کو حراست میں لیا۔ مظاہرے کے وقت بڑی مشکل سے میاں افتخار کو موقع سے نکالا۔ مظاہرین کے مطابق میاں افتخار کے گن مین نے فائرنگ کی۔ میاں افتخار کو بحفاظت نکالنا ہماری ذمہ داری تھی۔ بلدیاتی انتخابات میں پولیس کی کارکردگی پر بے جا تنقید کی جارہی ہے۔ جرم کرنیوالے کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو اسے قانون کے کٹہرے میں آنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ میاں افتخار حسین ایک اہم سیاسی شخصیت ہیں اور ہم ان کا بہت احترام کرتے ہیں، دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں ان کے بیٹے کی بھی جان گئی لیکن جس دن واقعہ پیش آیا اس موقع پر میاں افتخار حسین کی حفاظت کی خاطر انہیں حراست میں لیا گیا اور ایک پارٹی نے جیت کی خوشی میں جلوس نکالا جب وہ جلوس میاں افتخار حسین کے دفتر کے قریب پہنچا ہوا تو دونوں پارٹیوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں ایک شخص جاںبحق ہوگیا جس پر دوسری پارٹی نے الزام عائد کیا کہ یہ فائرنگ میاں افتخار حسین کے ہونے پر ہوئی ہے اور ان کے گن مینوں نے کی ہے جس پر انہوں نے میاں افتخار کے دفتر پر دھاوا بول دیا، پولیس نے موقع پر پہنچ کر میاں افتخار کو وہاں سے نکالا تو مظاہرین نے کہا کہ ان پر گرفتاری ڈالی جائے تو ڈی پی او نے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے میاں صاحب پر ایف آئی آر درج کرکے انہیں تھانے لے گئے تو مدعی نے ان پر ایف آئی آر درج کرائی تو بعد میں مدعی نے ان سے لاتعلقی کا اظہار کردیا۔ علاوہ ازیں پرویز خٹک نے کہا کہ انتقامی کارروائی پر یقین نہیں رکھتے نہ ہماری ایسی سوچ ہے۔ مقتول کے والد کے بیان پر میاں افتخار کے خلاف کیس ختم کیا جارہا ہے۔ علی امین گنڈاپور کے خلاف الزامات پر قانون ضرور حرکت میں آئے گا۔ علی امین کے خلاف پولیس کی کارروائی میں حیثیت یا اثرورسوخ نہیں دیکھا جائے گا۔ علی امین گنڈاپور کیخلاف الزامات پر ضروری کارروائی ہوگی، قانون سے بالاتر کوئی بھی نہیں ہے۔دی نیشن کے مطابق خیبر پی کے کے بلدیاتی انتخابات کے روز جاں بحق ہونے والے حبیب اللہ کے والد شیر عالم نے میاں افتخار حسین کے خلاف ایف آئی آر واپس لے لی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ ایف آئی آر درج کرانے کے وقت وہ جذباتی ہوگئے تھے، وہ جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوئے اور کہا کہ میاں افتخار حسین اور ان کا گارڈ ان کے بیٹے کے قتل میں ملوث نہیں میاں افتخار ان کے بڑے بھائی کی طرح ہیں۔
درخواست ضمانت مسترد


مزیدخبریں