کوئی آداب تشدد ہی سکھا دے ہم کو

چند ماہ پہلے کی بات ہے میں ایک دکان سے شاپنگ کرتے ہوئے باہر نکلی تو دیکھا کہ لوگوں کے ہجوم کے درمیان ایک لڑکی بیٹھی تھرتھر کانپ رہی تھی۔ اسکے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور منہ سے خون نکل رہا تھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ ایک کار اس راہ چلتی لڑکی سے ٹکرا گئی تھی جس پر احتجاجاً لڑکی نے کار سوار شخص سے کہا کہ کیا وہ اندھا ہے اور گاڑی دیکھ کر نہیں چلا سکتا۔ کار چلانے والا کوئی بگڑا ہوا امیرزادہ تھا، گاڑی سے باہر نکلا اور معذرت کرنے کی بجائے الٹا لڑکی کو تشدد کا نشانہ بنانے لگا۔ کار والے کے ساتھ اسکی ماں اور بہنیں بھی تھیں، افسوس کہ انہوں نے بھی اپنے بیٹے یا بھائی کو نہ روکا۔ اکیلی لڑکی کو اچھا خاصا ذلیل اور زخمی کرنے کے بعد وہ آدمی کار میں بیٹھا اور فرار ہو گیا۔
اس سارے واقعہ میں گاڑی میں سوار بے ضمیر عورتوں کا کردار بھی قابل مذمت ہے اور اس بے حس اور مردہ ضمیر ہجوم کا رویہ بھی قابل غور ہے جس نے اس لڑکی کو بے قصور پٹنے سے بچانے کی بجائے کھڑے ہو کر تماشہ دیکھا۔ لڑکی کی بے بسی دیکھ کر میرا دل دکھ سے لبریز ہو گیا۔ مجھ میں سوچنے اور سمجھنے کی طاقت نہ رہی نہ مزید خریداری کی ہمت۔ اس دن سے یہ حادثہ اس طرح میرے حواس پر سوار ہے جیسے یہ سب کچھ میری ذات پر بیتا ہو۔ مجھے آنیوالے دور کے پریشان کن مناظر دکھائی دینے لگتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ایک ایسا دور آنے والا ہے جس میں اخلاقی قدریں میوزیم میں کوڈ آف ہیموریبی کی طرح کسی کاغذ کے ٹکڑے پر لکھی ہوئی ملیں گی اور ہماری نسلیں اس کو پڑھ کر ہنسا کریں گی کہ یہ بھی کتنے عجیب لوگ تھے اور وہ کیسے زمانے تھے جب عورت کو دیکھ کر لوگ نگاہ نیچی کر لیتے تھے۔ جہاں مائیں، بہنیں، بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی تھیں۔ جہاں عمر میں بڑے کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اس بات سے بالاتر ہو کر کہ وہ آپ کے اپنے خاندان کا بڑا ہے یا کوئی اجنبی ہے۔ جہاں بزرگوں اور بڑوں سے بات کرنے سے پہلے الفاظ کا چنائو کیا جاتا تھا جہاں کسی کی عزت اور قدر اس کے اچھا انسان ہونے کے ناطے کی جاتی تھی نہ کہ اس کا سوشل اسٹیٹس دیکھ کر۔میں نے مارکیٹ میں بارہا اچھے لباس والوں اور عام سے کپڑوں میں ملبوس لوگوں کے درمیان دکاندار کے روئیے اور بات چیت میں فرق دیکھا ہے۔ امیری اعلیٰ عہدے پر فائز رشتہ دار اور متوسط یا غریب رشتہ دار سے تعلق میں تفاوت کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ سکول اور کالج میں دوستی کا معیار بھی اب بدل رہا ہے۔ عام لوگوں کے روئیے اور ادب و آداب کے طریقے بھی بدلے جا رہے ہیں۔ ہجوم کی نفسیات تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ کسی کی مدد کرنے اور غیر متعلق جھگڑوں میں پڑنے کے بجائے خاموش تماشائی رہنا پسند کرتے ہیں یا کسی وقوعہ پر ایک نظر ڈال کر چپکے سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ معاشرتی اخلاقیات کا سارا کلچر ہی روبہ تنزل ہے۔ اساتذہ کو گالیوں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن آج کل استادوں کو چوّل کہنا اور انکے نام رکھنا ایک بہت عام سی بات ہے۔ ہم ایسا کیوں نہیں کرتے تھے، اس کی وجہ گھر کی تربیت تھی۔ ہمارے ہاں دوست کو بے تکلفی سے تم کہنا بھی برا سمجھا جاتا تھا۔اکثر لوگوں کے روئیے پر ہم ابا جان کو سمجھاتے ہیں کہ اب ایسا نہیں ہوتا۔ زمانہ بدل گیا ہے تو وہ جھنجھلا کر ہم سے سوال کرتے ہیں کہ کیا اخلاقی اقدار کا معیار بھی بدل گیا ہے؟ کیا پانی اب جگ میں پیا جاتا ہے؟ کیا لوگ بستر کی بجائے کرسی پر سوتے ہیں؟ اور کیا ماں باپ کو بچے جنم دیتے ہیں؟ اگر زمانے میں جدت آئی ہے تو اخلاقی قدروں میں مزید بہتری کیوں نہیں آئی؟ شائستگی، حسن، اخلاق، تمیز، ادب آداب اور رکھ رکھائو میں زوال کو زمانے کا بدلائو سمجھ کر اگر تسلیم کر لیا جائے گا تو ہماری تہذیبی و سماجی کایا کلپ بہت دور نہیں۔ یہ حقیقت ہے ترقی اور جدت کے نام پر اخلاقی اقدار سے دوری سمجھ سے بالاتر ہے۔ہمارے ہاں مہذب ہونے کے معنی برانڈ کے کپڑے پہننا، بڑی گاڑی اور بڑے مکان کا مالک ہونا اور انگریزی بولنا ہے۔ ہر کوئی تہذیب کے اس معیار کو پانے اور اس تک پہنچنے کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں ہے۔ لیکن ترقی کے اصل معیار کو بلند کرنے یعنی اخلاقی قدروں اور اچھے رویوں پر کسی کا بھی دھیان نہیں ہے۔ ایک ادبی تقریب میں ایک عظیم شاعر کو کھاتا دیکھ کر مجھے احساس ہونے لگا کہ واقعی شاعر مفلس ہوتا ہے۔ عین ممکن ہے اتنا اچھا کھانا انہیں مدتوں بعد میسر آیا ہو۔ لیکن بعد میں انکشاف ہوا کہ ان کا اچھا خاصا ذاتی کاروبار ہے اور وہ شاعر بائے ڈیفالٹ ہیں۔اس طرح کا تقریباتی تشدد معمول بن چکا ہے۔ بعض لوگوں کو کھانے کے آداب تک نہیں معلوم۔ ایک اینکر پرسن کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے ہم سب کو اس وقت شدید کوفت ہوئی جب انہوں نے پچک پچک کی آواز سے سب کے کھانے کا مزہ کرکرا کر دیا۔ گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ’’نومولود‘‘ لکھاری خاتون نے ایک سینئر ادیب کے ساتھ دل کھول کر تو تو میں میں کی۔لیکن یہ کوئی ایک نومولود رائٹر نہیں تقریباً سب نئے لکھنے والوں کا یہی رویہ اور مزاج بن گیا ہے۔ وہ عمر اور مرتبے میں بڑے شاعر اور ادیب کا نہ احترام کرتے ہیں اور نہ ہی ان سے سیکھتے ہیں بلکہ وہ بڑی جلدی اس زعم میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ انہیں سب کچھ آتا ہے۔
ہنس کر خندہ پیشانی سے ملنے اور شائستگی سے بات کرنے والے لوگ جانے کہاں چلے گئے ہیں۔ بازار میں چلتے ہوئے کسی بوڑھے یا کمزور نے وزن اٹھایا ہو تو اس کا بوجھ اٹھانے کو ڈھیروں ہاتھ آگے بڑھتے تھے۔ بات معذرت کہہ کر ختم کی جا سکتی تھی۔ لیکن ہمارے ہاں ہر شخص دوسرے کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ محبت اور احترام کا کاروبار خسارے میں ہے۔ ترقی کا مطلب محض لباس‘ مکان‘ گاڑی اور ڈگری نہیں۔ اصل ترقی ذہنی اور سماجی رویوں میں بہتری ہے۔ ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ علم و ادب اور اخلاقی اقدار میں بھی ترقی ہونی چاہئے۔ زمانہ جتنا بھی بدل جائے‘ ترقی کی سوئی وقت سے تیز دوڑنے لگے‘ سوچیں مکینکل ہو جائیں اور انسانوں کی جگہ مشینیں لے لیں پھر بھی اعلیٰ اخلاقی اقدار اور معاشرتی رکھ رکھاؤ کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔

ای پیپر دی نیشن