اسلام آباد (ایجنسیاں) چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ سندھ میں گورننس نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ پسند اور نہ پسند کی بنیاد پر ترقیاں کی جائیں گی تو گورننس خاک آئے گی۔ ایک آدمی کو نوازنے کے لیے 15 آدمیوں کی حق تلفی کی جاتی ہے۔ عدالت نے افسروں کی ڈیپوٹیشن پر تقرری کے حوالے سے فیصلہ پر عملدرآمد میں رکاوٹ بننے والے افسروں کے ناموں کے حوالے سے رپورٹ چیف سیکرٹری سے طلب کر لی ہے۔ چیف جسٹس نے سندھ حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بیان دے دیں کہ سندھ میں جمہوریت نہیں بادشاہت ہے، پسند نہ پسند پر ترقیاں ہوں تو گڈ گورننس کیا خاک ہو گی، بتا دیں کہ وزیراعلیٰ سندھ قانون کے پابند نہیں ہیں۔ عدالت کو ٹالنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ کرنے والے متعلقہ افسروں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔ کیا وزیراعلیٰ سندھ کسی قانون کے پابند نہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ یہ بھی بیان دے دیں کہ ان کے صوبہ میں کوئی حکومت نہیں اگر ہمیں درخواست نہ دی جائے تو ہمیں پتہ ہی نہ چلے کہ سندھ میں کیا ہو رہا ہے۔ تین تین سال تک عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا ہر سماعت پر ٹالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سات سال سے سندھ حکومت کا یہی رویہ ہے۔جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ ایک شخص جو گریڈ ایک میں بھرتی ہوا گریڈ 16 میں تعینات کر دیا گیا گریڈ ایک کا ملازم گریڈ 16 تک کیسے پہنچا۔ اے این کے مطابق چیف جسٹس نے کہا سندھ میں ایک آدمی کو نوازنے کیلئے 15 لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔نمائندہ نوائے وقت کے مطابق سپریم کورٹ نے سندھ پولیس سمیت دیگر سرکاری ملازمین کی ترقی و تبادلوں سے متعلق اے آئی جی سندھ کی رپورٹ مسترد کر دی۔ عدالت کو بتایا جائے کہ کیا سندھ حکومت جمہوری حکومت نہیں ہے؟ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ سندھ حکومت نے عدالتی احکامات پر عدم عمل درآمد کا وطیرہ بنا لیا ہے میرٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں عدالت کس کس معاملے کو دیکھے پھر عدالت پر مداخلت کا الزام لگتا ہے جب عدالتی احکامات پر عمل نہ ہوگا تو عدالت مداخلت کرے گی۔ عدالتی احکامات کو نظر انداز کرنے والے ذمہ داروں کو عدالت نہیں چھوڑے گی ۔