جمہوری نظام اب بحرانوں سے نمٹ سکتا ہے: صدر ممنون

اسلام آباد (سپیشل رپورٹ+ نیٹ نیوز) صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ خطے میں مسائل کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے جو برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ جب تک یہ مسئلہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں ہوتا اس وقت تک خطے کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ حکومت اور حزب اختلاف دونوں جمہوری استحکام پر یقین رکھتے ہیں۔ ملک کے جمہوری نظام میں اب بحرانوں کا کامیابی سے سامنا کرنے کی صلاحیت پیدا ہو چکی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسی پالیسیاں ترتیب دی جائیں جس سے ملک مستحکم ہو۔ ضد اور ذاتی اختلافات کو قومی مفادات کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دیا جائے۔ سیاسی اختلافات سے معیشت کو متاثر نہیں ہونے دینا چاہیے۔ کمزور، غریب طبقات کے مسائل میں کمی کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ اپوزیشن کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تنقید کرتے ہوئے بابائے قوم کی اس ہدایت کو ہمیشہ پیش نظر رکھے کہ حزب اختلاف یا کسی بھی گروہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ منتخب حکومت پر غیرقانونی طور پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرے۔ قوم کے غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنا اپوزیشن کا بھی کام ہے۔ پائیدار ترقی جمہوریت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ آپریشن ضرب عضب کے تمام اہداف رواں سال کے آخر تک حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ممنون حسین نے کہا کہ قوم کو اتفاق رائے اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔ پائیدار ترقی اور استحکام جمہوریت کے بغیر ممکن نہیں، اب جمہوری نظام مختلف بحرانوں سے نمٹ سکتا ہے، ہم کسی قوم یا ملک پر جارحیت کا ارادہ نہیں رکھتے، اقتصادی راہداری پر تحفظات اور اعتراضات میں وزن نہیں، اقتصادی راہداری کیلئے تندہی سے کام کرنا ہوگا، قومی اور عالمی معاملات میں ایمانداری اور غیر جانبداری پر یقین رکھتے ہیں، پاکستان دنیا کے مظلوم اور کچلے ہوئے عوام کی مادی و اخلاقی مدد اور اقوام متحدہ کے منشور کی پاسبانی سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ 2018 ء تک بجلی کے تمام منصوبوں کی تکمیل کے بعد توانائی کے بحران پر قابو پا لیا جائے گا، ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور پُرامن بقائے باہمی کے خواہش مند ہیں۔ افغانستان میں امن کا قیام ناگزیر ہے، پڑوسیوں سے بامعنی مذاکرات چاہتے ہیں۔ رواں سال کے آخر تک داخلی سلامتی کو یقینی بنا کر ہم آپریشن ضربِ عضب کے تمام اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، پاکستان ایران گیس پائپ لائن ہماری توانائی کی ضروریات کی تکمیل میں بھی معاون ہوگی، پاکستان نے اپنی ایٹمی تنصیبات کو محفوظ بنانے کے لیے انتہائی جدید انتظامات کر رکھے ہیں جن کے سبب کسی بھی نوعیت کے کسی حادثے کا کوئی خدشہ نہیں، امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات دیرینہ اور تاریخی ہیں، ان تعلقات میں سٹریٹجک ڈائیلاگ کے ذریعے مزید گہرائی پیدا ہو رہی ہے، اقتصادی راہداری ملکی ترقی کیلئے سنہری موقع ثابت ہوگا، اس کا تعلق کسی حکومت، جماعت یا سیاسی شخصیات سے منسلک نہیں۔ پارلیمنٹ کے تین برسوں کی کامیابی سے تکمیل اور چوتھے سال کے آغاز پر میری طرف سے مبارک باد قبول کیجئے۔ تین برس کا یہ سفر اس حقیقت کا غماز ہے کہ ہمارے سیاسی نظام میں اتنی صلاحیت پیدا ہوگئی ہے کہ وہ مختلف قسم کے بحرانوں کا سامنا کامیابی سے کر سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ پائیدار ترقی اور استحکام کا مقصد جمہوریت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ سیاسی بلوغت کی جانب یہ ایک بڑی قومی پیش رفت ہے جس کیلئے پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں اور پاکستانی قوم خراج تحسین کی مستحق ہے۔ میں آپ سب کو اس پیشرفت پر ایک بار پھر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ گزشتہ تین برس کے دوران نرم گرم اور تلخ و شیریں، ہر طرح کے ماحول میں ہمارا یہ جمہوری سفر کامیابی سے جاری و ساری رہا، اب یہ قوم کے ہر فرد، ہر طبقے اور ہر ادارے کی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی زندگی میں فروغ پانے والے اس مثبت رحجان کو توانا اور قوی بنانے کے مشن میں دل و جان سے شریک رہے۔ صدر نے کہاکہ جمہوریت کی آبیاری اور افزائش کے ذریعے ہی عوام کی خدمت اور ان کے معیار زندگی میں بہتری پیدا ہوتی ہے نظام کو مزید مستحکم اور پائیدار بنایا جا سکتا ہے جو حکومتیں فرد اور ریاست کے تعلق کی اس نوعیت کو سمجھ کر قانون کی یکساں حکمرانی، معاشی ترقی اور عوام کو ان کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کویقینی بنا دیتی ہیں، ایسی حکومتیں مشکل مقامات سے بآسانی گزر کر نظام اور جمہوریت کے استحکام کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں اس حقیقت سے آگاہ ہیں اور اپنی پالیسیاں اِسی فلسفے کی روشنی میں ترتیب دے رہی ہیں جس کے نتیجے میں جمہوریت مستحکم ہو رہی ہے۔ میں چاہوں گا کہ حکومت چاہے کسی بھی جماعت کی ہو، وہ اپنی پالیسیاں اسی آزمودہ اصول کی روشنی میں ترتیب دے تاکہ جمہوری نظام کی جڑیں مضبوط ہوں اور پاکستانی عوام آسودگی اور خوش حالی کی زندگی بسر کر سکیں۔ صدر نے کہاکہ کسی قوم کی ترقی اور خوش حالی کا اندازہ اس کی معاشی کارکردگی سے لگایا جاسکتا ہے۔ پرانے سیاسی کارکن اور معاشیات کے طالب علم کی حیثیت سے میری نظر ان معاملات پر ہمیشہ رہی ہے۔ خطے میں پائی جانے والی بے چینی، کئی دہائیوں سے جاری جنگوں، دہشت گردی اور مختلف ادوار کے دوران مالی نظم و نسق برقرار رکھنے میں ناکامی کی وجہ سے ملک بہت سے مسائل سے دوچار رہا ہے جس سے قومی آمدنی اور پیداوار تشویش ناک حد تک متاثر ہوئی۔ یہ صورت ِ حال تقاضا کرتی تھی کہ زر مبادلہ کے ذخائر اور قومی پیداوار میں اضافے کے ساتھ بجٹ خسارے اور اشیائے صرف کی بڑھتی ہوئی قیمتوں میں کمی کی جائے۔ اس تناظر میں جب ہم غیر جانبدار بین الاقوامی اداروں کی حالیہ رپورٹوں کا جائزہ لیتے ہیں تو صورت حال حوصلہ افزا نظر آتی ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ٹیکسوں کے نظام اور وصولی میں بہتری ہوئی، زرِمبادلہ کے ذخائر اور قومی پیداوار کی شرح نمو اطمینان بخش طریقے سے بڑھ رہی ہے اور اس برس یہ 4.7 فیصد رہی۔ بجٹ خسارے میں کمی آئی، افراطِ زر کی شرح قابو میں رہی اور روپیہ مستحکم ہوا۔ یہ اشاریے مثبت ہیں جن سے بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو گی، ہماری اقتصادی ترقی کی رفتار تیز ہو گی اور پاکستان چین اقتصادی راہداری سے اسے مزید مہمیز ملے گی۔ معاشی میدان میں ایسی خوش آئند پیش رفت مستقل مزاجی کے ساتھ تشکیل دی گئی حقیقت پسندانہ پالیسیوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ میں چاہوں گا کہ معیشت کے استحکام کے لیے پاکستان کے معروضی حالات کے مطابق پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے اور معیشت کی بہتری کے ثمرات عام آدمی تک پہنچانے کے لیے بھی مزید اقدامات کیے جائیں کیونکہ اچھی حکومت کی یہی پہچان ہے۔ انسداد پولیو مہم میں قربانیاں دینے والے ہمارے ہیرو ہیں۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا تھا کہ اگر ہم پاکستان کو خوشحال دیکھناچاہتے ہیں تو ہمیں اپنے عوام اور خاص طور پر غریب طبقات کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہو گا۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ پاکستان کی اقتصادی پالیسی کا محور قائد اعظمؒ کا یہی فرمان ہونا چاہئے۔ گزشتہ برسوں کے دوران عوامی بہبود کے کئی اقدامات سامنے آئے ہیں جن میں نوجوانوں کے لیے کاروبار کے مواقع، فنی تربیت، غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والی آبادی کی مدد کے لیے جامع پروگرام، بنیادی اشیائے صرف پر سبسڈی، کسانوں اور کاشت کاروں کے لیے خصوصی پیکج، پسماندہ علاقوں کے بچوںکے لیے مفت تعلیمی سہولتیں اور وظائف، ہونہار اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے لیے لیپ ٹاپ کی فراہمی اور ہیلتھ انشورنس سکیم جیسے کئی منصوبے شامل ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کمزور اور غریب طبقات کے مسائل میں کمی کے لیے اس طرح کے اقدامات مسلسل کیے جاتے رہنے چاہئیں تاہم معاشی پالیسیوں پر حزبِ اختلاف کی تنقید کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے سمجھ دار حکومت کی طرح اپنی طاقت بنا لینا چاہیے تاکہ ان پالیسیوں میں مزید بہتری آئے اور ان کی افادیت مزید بڑھ جائے لیکن اس کے ساتھ ہی حزب اختلاف کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تنقید کرتے ہوئے بابائے قوم کی اس ہدایت کو ہمیشہ پیش نظر رکھے کہ حزب اختلاف یا کسی بھی گروہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ منتخب حکومت پر غیر قانونی طریقے سے اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرے۔ قائد اعظمؒ کے بتائے ہوئے اس رہنما اصول میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ ضد اور ذاتی اختلافات کو قومی مفادات پر غالب آنے دیا جائے تو اس کے نتیجے میں معاشرے کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے جس کا تلخ تجربہ ہم اپنی پارلیمانی، جمہوری اور سیاسی تاریخ میں بارہا کر چکے ہیں لیکن آئندہ اس کے متحمل نہیں ہوسکتے کیونکہ اب غلطی کی گنجائش بالکل نہیں ہے۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ اپنی تاریخ کے اس مرحلے پر قوم کو اتفاق رائے اوریک جہتی کی جتنی ضرورت آج ہے، اس سے پہلے کبھی نہ تھی، پاکستان چین اقتصادی راہداری کے تناظر میں اس کی اہمیت تو اور بھی زیادہ ہے۔ اس منصوبے کی تشکیل، پاکستان چین معاہدوں اور مختلف روٹس کی منصوبہ بندی کے بہت سے امور میں مختلف مواقع پر ہونے والی پیشرفت کی تفصیلات براہ راست میرے علم میں ہیں، ان معاملات میں بعض حلقوں کی طرف سے جو تحفظات سامنے آئے ہیں، ان میں وزن نہیں۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری قومی معیشت کے احیا کے لیے کتنی اہم ہے، محتاج ِبیاں نہیں لیکن میں آپ کو یہ ضرور بتاناچا ہوں گا کہ اس راہداری سے مستفید ہونے کے لیے ہمارے پڑوسی خاص طور پر وسط ایشیا کے ممالک نے ابھی سے تیاری شروع کردی ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اقتصادی راہداری کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے تندہی سے کام کیا جائے۔ اس سلسلے میں چینی ماہرین اور کارکنوں کی حفاظت کے لیے خصوصی سکیورٹی ڈویژن کا قیام عمل میں آگیا ہے، سڑکوں کی تعمیر کا سلسلہ بھر پور طریقے سے جاری ہے، مجھے امید ہے کہ اقتصادی راہداری کے مغربی اور چند دوسرے روٹس پر بیشتر کام اس سال کے آخر تک مکمل ہوجائے گا۔ حکمران اور حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن ریاست برقر ار رہتی ہے، یہی حقیقت پورے نظام کی بنیاد ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے سیاسی اختلافات برقرار رکھتے ہوئے بھی معیشت کو متاثر نہیں ہونے دینا چاہیے کیونکہ مضبوط پاکستان کی تعمیر مضبوط معیشت کے ذریعے ہی ممکن ہے، اس سلسلے میں میری تجویز یہ ہے کہ قوم معاشی استحکام کے ایجنڈا پر متفق ہو جائے تاکہ ہر طرح کے حالات میں اقتصادی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہ سکے۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اور دیگر متعلقہ حلقے اس تجویز پر غور کر کے جلد ہی کوئی ٹھوس قدم اُٹھائیں گے۔ صدر نے کہا کہ معیشت کا استحکام اور اقتصادی خود انحصاری ہر حکومت کا نصب العین ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ توانائی کے بحران کی ایک بڑی وجہ قدرتی گیس کے ذخائر میں پیدا ہونے والی کمی بھی تھی، قطر سے ایل این جی کی درآمد سے صنعتی پیداوار میں رونما ہونے والی کمی پر قابو پانے میں مدد ملی ہے، سرکاری اور نجی سرمایہ ڈوبنے سے بچا ہے اور لوگوں کی ایک بڑی تعدادکو روزگار بھی ملا ہے لیکن اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں مزید متبادل ذرائع سے بھی توانائی کے حصول پر کام جاری رکھنا چاہیے جن میں ہائیڈل، سولر، ونڈ اور کوئلہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس سلسلے میں میری تجویز ہو گی کہ ہمیں گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور دیگر بالائی علاقوں کے ندی نالوں اور آبی گزرگاہوں سے بھی بجلی کی پیداوار شروع کرنے پر توجہ دینا ہو گی کیونکہ ان ذرائع سے ہمیں بہت سستی اور وافر بجلی میسر آسکتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ دیامر بھاشا اور داسو ڈیموں کی تعمیر پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ ان چھوٹے منصوبوں پر بھی ابھی سے غور شروع کر دیا جائے۔ قومی ترقی کا خواب صرف اسی صورت میں شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے جب ملک میں امن و امان ہو، کاروباری ماحول سازگار ہو اور سرمایہ کار بلا خوف سرمایہ کاری کر سکے، مجھے خوشی ہے کہ اب ملک کے مختلف حصوں، بالخصوص وزیرستان، بلوچستان اور کراچی میں بحالیِ امن کی کارروائیوں کے بھی حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں اور ملکی سطح پر معاشی ترقی کی شرح بہتر ہوئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سال کے آخر تک داخلی سلامتی یقینی بنا کر ہم ضربِ عضب کے تمام اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس لیے اب ہمیں اپنی توجہ ان آپریشنوں سے حاصل ہونے والے نتائج کو برقرار رکھنے پر بھی مبذول کرنی چاہیے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم نے بے مثال عزم وہمت کا مظاہرہ کیا ہے، قوم اس جنگ میں شہید ہونے والے مردوزن، بزرگوں اور بچوں کو اپنا محسن سمجھتی ہے، میں چاہتا ہوں کہ پاکستان کے تحفظ کی اس جنگ میں قربانیوں کی عدیم النظیر مثالیں رقم کرنے والے عوام کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے قومی یادگار قائم کی جائے جس پر اس جنگ میں شہید ہونے والے ہر فرد کا نام کندہ کیا جائے، زندہ قومیں اپنے شہیدوںکو ہمیشہ ایسے ہی عزت و احترام دیا کرتی ہیں جس کی دنیا میں بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ اس طرح کی یادگاریں وطن کے تحفظ اور اس کے دفاع کا جذبہ پیدا کرتی ہیں۔ دفاعِ وطن کی اس جنگ میں ہمارے سول و فوجی اداروں کے جوانوں اور افسروں نے بھی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جس پر قوم انہیں خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔ ہم دنیا پر واضح کرتے ہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد ’’امن برائے ترقی اور پرامن ہمسائیگی‘‘ ہے۔ یہ پالیسی بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کی تعلیمات کی روشنی میں تشکیل دی گئی تھی جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ’’ہماری خارجہ پالیسی تمام اقوام عالم سے دوستی اور بھائی چارے پر مبنی ہو گی۔ ہم کسی قوم یا ملک پر جارحیت کا ارادہ نہیں رکھتے، ہم قومی اور عالمی معاملات میں ایمان داری اور غیر جانبداری پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ پاکستان دنیا کے مظلوم اور کچلے ہوئے عوام کی مادی و اخلاقی مدد اور اقوام متحدہ کے منشور کی پاسبانی سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا‘‘۔ ان ہی اصولوں کی روشنی میں ہماری خارجہ پالیسی تین بنیادی نکات پر استوار کی گئی ہے جن میں، تعمیری سفارت کاری، عدم مداخلت، تجارت کا فروغ اور معاشی تعاون شامل ہیں۔ عالمی امن اور ہم آہنگی کے لیے اپنے اس پُر خلوص جذبے کے تحت ہم دنیا کے تمام ملکوں بالخصوص ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور پُرامن بقائے باہمی کے خواہش مند ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خطے کے مسائل کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے جو تقسیم برصغیر کا نا مکمل ایجنڈا ہے جب تک یہ مسئلہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق طے نہیں ہو جاتا اس وقت تک خطے کے مسائل حل نہیں ہو سکیں گے۔ گزشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھی یہی پیغام دیا گیا تھا کہ ہم پڑوسیوں کے ساتھ بلاتعطل، مسلسل اور بامعنی مذاکرات کے خواہش مند ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ ہماری طرف سے خلوص اور گرم جوشی کے ساتھ بڑھائے گئے ہاتھ کا جواب اسی جذبے کے تحت نہیں دیا گیا۔ بدقسمتی سے حال ہی میں چند مزید ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی ضرورت پر بار بار زور دینے اور پٹھان کوٹ واقعہ کی مذمت اور مشترکہ تحقیقات کی پیشکش کے باوجود خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات التوا کا شکار ہیں جس پر ہمیں تشویش ہے۔ اس طرح کے حالات نیک نیتی اور اخلاص کے اُسی جذبے کے روبہ عمل آنے سے بہتر ہوسکتے ہیں جس پر پاکستان کاربند ہے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ خطے میں امن واستحکام کے لیے افغانستان کا امن ناگزیر ہے۔ یہ مقصد فریقین کے درمیان مکمل مفاہمت کے ذریعے ہی ممکن ہے اور اس کا کوئی فوجی حل نہیں ہو سکتا۔ افغانستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان نے پورے اخلاص کے ساتھ نئی قیادت سے رابطے کیے تاکہ ماضی کی بدگمانیو ں کا خاتمہ کر کے دیرپا امن کی راہ ہموار کی جا سکے۔ اس سلسلے میں پاکستان ہی کی تحریک پر چار ملکی تعاون گروپ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت میں معاونت کررہا ہے جس کے اب تک کئی اجلاس ہو چکے ہیں۔ افغانستان میں رونما ہونے والے حالیہ چند واقعات کی وجہ سے ان کوششوں کو نقصان پہنچا ہے لیکن ہمیں توقع ہے کہ یہ کو ششیںجلد کامیاب ہوں گی۔ 14 ملکی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس میں پاکستان کا کردار بہت اہم ہے۔ انہوں نے کہاکہ اسلامی برادری سے تعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہیں۔ ایران پر عائد پابندیوں کے خاتمے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے جس کے نتیجے میں دو طرفہ تجارت کو پانچ بلین ڈالر تک پہنچانے کے لیے پانچ سالہ سٹرٹیجک منصوبے کی تشکیل پر کام ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو وسعت دینے کے لیے مزید انٹری پوائنٹس کھولنے پر اتفاق ہوا ہے جبکہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن ہماری توانائی کی ضروریات کی تکمیل میں بھی معاون ہوگی۔ وسط ایشیائی اور دیگر ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ پاکستان کے پرجوش قریبی تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے جو آنے والے برسوں میں سیاسی اور اقتصادی ہی نہیں، سماجی اور ثقافتی شعبوں تک بھی وسیع ہوجائیں گے۔ ان دوست اور برادر ملکوں کے ساتھ ہمارے تعلقات خطے میں تعاون اور ترقی کے ایک نئے شاندار دور کی نوید ثابت ہوں گے۔ انہی پرُخلوص دوستوں کے تعاون سے پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت حاصل کی جس سے روسی فیڈریشن کے ساتھ ہمارے تعلقات کو نئی جہت ملی، حال ہی میں دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون کا ایک سمجھوتہ ہوا ہے۔ تعاون کے ایک اور معاہدے کے تحت کراچی سے لاہور تک گیس پائپ لائن بچھانے کے لیے دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے خوشگوار تعلقات کا مظہر ہے۔ صدر نے کہاکہ برادر مسلم ممالک تاجکستان اور ترکمانستان کے صدور نے گزشتہ برس پاکستان کے دورے کیے جن میں تاریخ ساز معاہدے ہوئے۔ حال ہی میں کاسا 1000 منصوبے کا آغاز ہوا ہے، اسی طرح تاپی گیس پائپ لائن کا افتتاح بھی اس ضمن میں ایک اہم پیش رفت ہے جن سے ہمیں اپنی توانائی کی ضروریات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ علاقائی روابط، امن و استحکام اور خوشحالی کے فروغ میں بھی مدد ملے گی۔ پاکستان نیوکلیئر سکیورٹی پر سختی سے یقین رکھتا ہے اور وہ اس معاملے میں عالمی برادری کو بھی متحرک کرنے کی سنجیدہ کوششوں میں مصروف ہے۔ پاکستان نے اپنی ایٹمی تنصیبات کو محفوظ بنانے کے لیے انتہائی جدید انتظامات کر رکھے ہیں جن کے سبب کسی بھی نوعیت کے کسی حادثے کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔ ہمارے ان انتظامات کے بہترین معیار کا اعتراف حال ہی میں واشنگٹن میں منعقد ہونے والی نیوکلیئر سمٹ میں بھی کیا گیاجو ہمارے لیے باعثِ فخر ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ قومی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے خواتین کو ورک فورس کا حصہ بنایا جائے اور پرائمری تعلیم کا شعبہ مکمل طور پر اُن کے سپرد کر دیا جائے۔ صدر نے کہاکہ قائد اعظمؒ ایسے نظام تعلیم کی تشکیل کے خواہش مند تھے جس کے ذریعے ہمارے بچے اپنی تاریخ و تہذیب اور جدید دنیا سے مطابقت پیدا کرکے اقوام عالم میں پاکستان کا نام روشن کر سکیں۔ 18 ویں ترمیم کے تحت تعلیم کا معاملہ اگرچہ صوبوں کے سپرد ہے لیکن مشترکہ قومی مقاصد اور مسلمہ ملی و دینی اقدار کی ترویج کے لیے پاکستان کے تمام صوبوں اورعلاقہ جات کے تعلیمی نظام میں یکسانیت بہر حال ہونی چاہیے۔ میں نے وزیر اعظم کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تھی جس پر وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کام کر رہی ہے۔ امید ہے کہ ان کوششوں کے خاطر خواہ نتائج جلد برآمد ہوں گے۔ قومی ترقی میں زراعت کا حصہ بہت زیادہ ہے اور ہمارے محنت کش کسان بڑی محنت سے ملک کی غذائی ضروریات پوری کرتے ہیں تاہم دنیا جب سے موسمیاتی تبدیلیوںکی زد میں آئی ہے، اس سے ہمارا کسان بھی متاثر ہوا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمارے زرعی اور موسمیاتی سائنس دان اپنی تحقیق اور عالمی رحجانات کی روشنی میں کسانوں کی رہنمائی کریں تاکہ ہمارا زرعی شعبہ ان تبدیلیوں سے کم سے کم متاثر ہو۔ اسی طرح حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اس شعبے کی اہمیت کے پیشِ نظر کسانوں اور کاشتکاروں کے مسائل کے تدارک کے لیے مناسب اقدامات کا سلسلہ جاری رکھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی اُٹھان بڑی شاندار تھی ، اقوام عالم توقع کر رہی تھیں کہ یہ ملک ایک چمکتے ہوئے ستارے کی طرح نمایاں ہو گا لیکن بعض وجوہات کے سبب ہم بدقسمتی کا شکار ہوئے اور اپنی منزل سے دور ہو گئے، آزمائش کے ان زمانوں میں قانون شکنی کی عادات ِ بد رنگ لائیں اور معاشرے میں بدعنوانی جڑ پکڑ گئی۔ بدعنوانی کے اس مکروہ دھندے نے قومی ترقی کی راہیں مسدود کر دیں۔ مجھے خوشی ہے کہ اب اس گھنائونے معاشرتی و قومی جرم کے خلاف بیداری پائی جاتی ہے اور معاشرے کا ہر طبقہ اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا آرزومند ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں ہم بحیثیتِ قوم اپنے اس عزم میں سرخرو ہوں گے اور پاکستانی سماج بدعنوانی کا قلع قمع کرکے ترقی اور سربلندی کے راستے پر گامزن رہے گا۔ صدر نے کہاکہ سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا کہ ’’اللہ جسے چاہتا ہے، اپنی رحمت کے لیے چن لیتا ہے اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے‘‘۔ صدر نے کہاکہ معاصر دنیا، خطے کے حالات اور پاکستان میں رونما ہونے والی تبدیلیاں میری نظر میں ہیں اور میں پاکستان کے افق پر ترقی، سر بلندی اور امن واستحکام کا ایک نیا سورج طلوع ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، قدرت ہم پر مہربان ہے اور وطنِ عزیز کی ترقی و خوشحالی کے نئے امکانات پیدا ہو رہے ہیں جس میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ نمایاں ترین ہے۔ اس لیے میں اپنے ہم وطنوں سے کہوں گا کہ مایوسی کو اپنے قریب نہ پھٹکنے دیں، ایک نئے جوش اور جذبے کے ساتھ ملک کی ترقی و خوشحالی میں اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کریں، اپنی صفوں میں کوئی دراڑ نہ پڑنے دیں اور آنے والے دور کے تقاضوں پر پورا اترنے کے لیے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر سخت محنت کریں تاکہ ہم خود کو اس انتخاب کا اہل ثابت کر سکیں۔ ہمیں اپنا جائز مقام ضرور ملے گا اور جلد ملے گا۔ صدر نے کہا کہ انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے غیرجانبدار و غیر سیاسی علما اور سماجی علوم کے ماہرین کا گروپ تشکیل دیا جائے۔ ہمارا دین اخلاقی اقدار اور ملک کا قانون خونریزی، عبادت گاہوں کی بے حرمتی، اقلیتوں کے ساتھ زیادتی کی اجازت نہیں دیتا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...