گزشتہ دنوں کورین صدر کو کرپشن کیس میں سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دے دیا۔ صدر نے سر جھکا کے فیصلے کو قبول کر لیا اور گھر چلی گئی۔ بات صرف صدر کے مستعفی ہونے تک ہی محدود نہ رہی بلکہ جب صدر کے خلاف کرپشن کیس عدالت میں شروع ہوا تو حکومتی پارٹی کے وزراء اور ممبران اسمبلی نے مطالبہ کیا کہ صدر کی وجہ سے ہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ ملک کا نام بدنام ہوا ہے۔ اس لیے صدر کو قانونی و آئینی طریقے سے سخت سزا دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سارے لوگ صدر کی پارٹی کو چھوڑ گئے۔قارئین یہ مثال ایک باشعور عوام کے صدر کی ہے۔ باشعور قوموں کے حکمران ایسے ہی طرزعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ عوام سے مراد ہرگز بھیڑ، بکریوں کا وہ ریوڑ ہے جن کا چرواہا انہیں وحشی درندوں کے آگے چھوڑ کے خود گہری نیند سورہا ہو۔ نہ ہی عوام وہ افراد ہوتے ہیں جو بے بسی، خود پرستی اور خود غرضی کا لباس پہنے درندوں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کر دیئے گئے ہوں۔ بنیادی طور پر عوام مہذب اور مستحکم معاشرے کو تخلیق کرنے والے وہ افراد ہوتے ہیں جن کی اکثریت اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہوتی ہے حقوق و فرائض سے آگاہی شعور کہلاتا ہے۔
بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں شعور و آگہی ناپید ہو چکے ہیں۔ علم جمود کا شکار ہے باشعور قومیں ہی عوام کہلانے کی حق دار ہیں۔ وہ اپنی منزل متعین کر تی ہیں اور پھر اس منزل کو حاصل کرنے کے لئے محنت اور مستقل مزاجی کو اپنا شعار بنا لیتی ہیں قارئین اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے اگر ہم ماضی کا مختصر تجزیہ کریں تو یہ بات اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ پاکستان کی جدوجہد کا آغاز 1857ء کی جنگ آزادی کے فوراً بعد شروع ہو چکا تھا۔ اس طویل عرصہ میں برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی اپنی صلاحیت و اہلیت کے مطابق اہم کردار ادا کیا۔ جن میں مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ وہ عظیم رہنما تھے جنہوں نے سوئی قوم کو جگانے اور عوام میں شعور بیدار کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ نتیجتاً پاکستان حاصل کرنے کی جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ آج پھر ریاست پاکستان کی سا لمیت اور عوام کی ترقی و خوشحالی کے لئے عوام کا حقوق و فرائض سے آگاہ ہونا ازحد ضروری ہے۔ حقوق سے آگاہ قومیں ہی فرائض ادا کرنے میں سنجیدہ ہوتی ہیں۔ اسی طرح فرائض کی ادائیگی حقوق کے حصول کی طرف پہلا قدم ہوتی ہے۔باشعور قوموں کے یہ وطیرے ہرگز نہیں ہوتے کہ وہ پانچ سال منتخب نمائندوںکو اپنے اوپر مسلط ہونے والے عذاب سے تشبیہ دیں اور پھر اس مسلسل عذاب کو قبول بھی کئے رکھیں۔ قارئین اگر عوام ایجوکیٹ اور باشعور ہوں تو ملکی عدالتیں 2/3 اکثریت سے فیصلے نہیں سنایا کرتیں۔ باشعور قوموں کے ادارے آزاد اور خود مختار ہوتے ہیں اور نمائندے عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔
عوام کے شعور کو سمجھنے کے لیے اگر ہم انتخابی نظام کا تجزیہ کریں اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ باشعور قومیں اپنے نمائندوں کا انتخاب ان کی پارٹی کے منشور سے کرتی ہیں۔ وہ قانون آئیں اور انصاف کے معیار پر پورا اترنے والے نمائندوں کو فوقیت دیتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی اقوام پر ملکی و قومی مفادات کو ترجیح دیتی ہیں۔ نمائیدے کے انتخاب میں ان کے سوالات یہ ہوتے ہیں کہ کیا وہ ملک و قوم کے حقوق ادا کرنے کی اہلیت و قابلیت رکھتے ہیں؟ کیا نمائندہ، ماضی میں کسی قسم کے جرائم میں ملوث تو نہیں رہا؟ اس کی ترجیحات ذاتی مفادات ہیں یا عوام و ریاست کی خدمت؟
یہ وہ تمام بنیادی سوالات ہیں جو باشعور قومیں اپنے نمائندوںسے کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں۔ باشعور اقوام پارٹی منشور کی بنیاد پر اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتی ہیں جبکہ پاکستان میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ پاکستان میں عوام کی اکثریت اقرباء پروری، ذاتی تعلقات، رشتہ داری، خوف اور ذاتی مفادات پر اپنے نمائندوں کا انتخاب کرتی ہے۔ حقوق و فرائض سے لاعلم عوام نمائندوں کے انتخابات میں صرف دیکھتی ہے کہ اس نمائندے سے ان کی ذات کو کیا فائدہ حاصل ہو گا؟ اس کا کس خاندان اور برادری سے تعلق ہے؟قارئین یہی وجہ ہے کہ باشعور اقوام کے نمائندے جب پاناما کیس میں ملوث پائے جاتے ہوں تو وہ غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خودمستعفی ہوجاتے ہیں۔جبکہ حقوق و فرائض سے لاعلم عوام کے کرپشن و لوٹ مار میں ملوث حکمران اقتدار پر قابض رہنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
انسانی شرف و وقار کو بحال کرنے کے لیے پاکستانی عوام میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو ایجوکیٹ کرنے کے لیے باشعور اور دانشمند افراد کو آگے بڑھنا ہو گا۔ معاشرتی قباحتوں سے انحراف اور فرائض کی ادائیگی کا شعور پیدا کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ راقم کا خیال یہ ہے کہ محب وطن تحریکوں اور جماعتوں کو بیداری شعور کی باقاعدہ مہم چلانی چاہیے۔ 1947ء میں ہمارے پاس باشعور قوم تھی لیکن الگ وطن نہ تھا لیکن آج ریاست پاکستان کو ایک باشعور قوم کی ضرورت ہے۔