اختلاف رائے غیر معمولی بات نہیں، انتشار روکنا چاہیئے : صدر ، تقریرکے دوران اپوزیشن کا شدید ہنگامہ ، بائیکاٹ

Jun 02, 2017

اسلام آباد ( اسپیشل رپورٹ+ صباح نیوز) صدر مملکت ممنون حسین نے کہا بھارت کے ساتھ تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کر نے کے خواہاں ہیں، پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی اختلاف جموں و کشمیر کا مسئلہ ہے جو تقسیم برصغیر کا نامکمل ایجنڈا ہے، مسئلہ کشمیر کا واحد حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت استصواب رائے کا انعقاد ہے، اس مقصد کے لئے ہم اپنے کشمیری بھائیوں کی سیاسی‘ سفارتی اور اخلاقی حمایت ہمیشہ جاری رکھیں گے۔ افغانستان میں امن کے بغیر خطے میں استحکام پیدا نہیں ہوسکتا، توانائی کی ضروریات پوری کرنے کےلئے تاپی گیس پائپ لائن اور کاسا 1000 کے منصوبوں سے ہمیں بڑی توقعات وابستہ ہیں، امریکہ اور روس کے ساتھ ہمارے تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، پاکستان اور ترکی محبت اور احترام کے انتہائی گہرے رشتے میں منسلک ہیں، اقتصادی راہداری اس کی ایک شاندار مثال ہے، منصوبہ پاکستان، چین اور خطے کے دوسرے ممالک کےلئے بھی ترقی و خوشحالی کا ذریعہ بنے گا، پاکستان ایٹمی اسلحہ کے عدم پھیلاﺅ پر یقین رکھتا ہے، ہمارے ایٹمی اثاثے مکمل طور پر محفوظ ہیں، پاکستان نیو کلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت کا بجا طور پر حق دار ہے، اس سلسلے میں جلد اچھی پیشرفت ہوگی ¾ غربت کے خاتمے کےلئے قومی سطح پر سخت محنت کی ضرورت ہے ¾ زراعت معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ¾ شعبے کی ترقی اور کسانوں کی حالت زار میں بہتری کےلئے مسلسل اقدامات کئے جائیں ¾ دہشت گردی کے خاتمے کےلئے طویل جنگ میں ہم نے غیر معمولی قربانیاں دی ہیں ¾ ہمارے ہزاروں ہم وطنوں اور محافظوں نے جان و مال کی قربانی دی‘ ہمیں ان جانبار سپاہیوں اور شہریوں پر فخر ہے ¾امید ہے ضرب عضب کی طرح آپریشن ردالفساد بھی جلد اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوگا اور ملک امن و امان کا گہوارہ بنے گا۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت ممنون حسین نے کہا کہ پاکستانی جمہوریت نے بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں ¾ہماری جمہوریت آزمائش کی گھاٹیوں سے بھی گزری ہے اور قوم کے عزم کی بدولت اس نے بڑے بڑے معرکے بھی سر کئے ہیں جس کے نتیجے میں ہماری پارلیمان کا اپنے حقیقی مقاصد کے حصول کی طرف کامیابی سے سفر جاری ہے۔ یہ عہد اس اعتبار سے بہت معنی خیز ہے کہ بے شمار مشکلات کے باوجود پارلیمنٹ نے اپنی فیصلہ کن حیثیت نہ صرف برقرار رکھی بلکہ انتہائی شدید سیاسی اختلافات کے باوجود قومی اتحاد کی سب سے بڑی علامت بن کر بھی ابھری۔ تاریخ میں اس کا یہ کردار ہمیشہ یاد رکھا جائےگا جس پر میں آپ سب کو اور پاکستانی قوم کو دل کی گہرائی سے مبارکباد دیتا ہوں۔ سورہ حشر میں فرمایا گیا ” جو لوگ دل کی تنگی سے بچا لئے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں“ مجھے اللہ تعالیٰ سے پوری امید ہے کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ اختیار کئے گئے اس طرز عمل میں برکت پیدا فرمائے گا اور ہم مسائل کی گرفت سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں گے۔ صدر مملکت نے کہا کہ گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران بے سمت پالیسیوں اور تدبر سے محروم طرز عمل کی وجہ سے قیمتی وسائل بے دردی سے ضائع کردیئے گئے۔ مقام شکر ہے کہ اب احساس زیاں بھی موجود ہے اور کچھ کرنے کا جذبہ بھی۔ ریاست کی کاروبار و سرمایہ کار دوست پالیسیاں، مختلف براعظموں کو باہم ملا کر ایک نئی دنیا کی تخلیق کا ذریعہ بننے والے پاک چین اقتصادی راہداری اور توانائی کے بحران سے نکلنے کے لئے بجلی کی پیداوار کے منصوبے اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ صدر مملکت نے کہا کہ ترقیاتی عمل اور وسائل پر حق کے سلسلے میں قوم کے مختلف طبقات کے درمیان اختلاف رائے کا پیدا ہو جانا غیر فطری نہیں بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ایسے معاملات میں اختلاف رائے خیر و برکت کا ذریعہ بنتا ہے اور غلطیوں کی اصلاح کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ اختلاف رائے کو انتشار میں بدلنے کا راستہ پوری حکمت کے ساتھ بند کردیا جائے تاکہ قومی ترقی کے عمل کو متنازع بنانے کی ہر کوشش کو ناکام بنایا جاسکے۔ صدر مملکت نے کہا کہ حکومت کا وژن 2025ءمیری نظر سے گزرا ہے جس میں معیشت کے استحکام اور عوام کی بہبود کے لئے کئی پرکشش پروگرام شامل کئے گئے ہیں جن میں قومی پیداوار اور فی کس آمدنی کی شرح میں اضافے کے بعد دنیا کی 25 بڑی معیشتوں میں شمولیت کا عزم بھی شامل ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ حکومت‘ حزب اختلاف اور وطن عزیز کی تمام سیاسی جماعتیں اتفاق رائے سے اسے ایک متفقہ قومی منصوبے کی حیثیت دے دیں تاکہ حکومت کسی بھی جماعت کی ہو‘ عوامی بہبود کے کاموں میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو سکے اس کے ساتھ ہی بڑھتی ہوئی آبادی کی منصوبہ بندی پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ وسائل کے درست استعمال کو یقینی بنایا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ بنک کا کہنا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا کی بہترن کارکردگی والی معیشتوں میں شامل ہو چکا ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ آزاد جموں و کشمیر‘ فاٹا اور گلگت بلتستان کے پسماندہ علاقوں کو ملک کے دیگر حصوں کے برابر لانے کے لئے حکومت نے خطیر رقوم مختص کی ہیں جو خوش آئند ہے تاکہ وطن عزیز کے تمام علاقے یکساں طور پر ترقی کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ زراعت معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس شعبے کی ترقی اور کسانوں کی حالت زار میں بہتری کے لئے مسلسل اقدامات کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کئے جائیں لیکن مجھے افسوس ہے کہ اس سلسلے میں ہماری پرخلوص پیشکش کا جواب اسی جذبے سے نہیں دیا گیا۔ مسئلہ کشمیر کا واحد حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت استصواب رائے کا انعقاد ہے۔ اس مقصد کے لئے ہم اپنے کشمیری بھائیوں کی سیاسی‘ سفارت اور اخلاقی حمایت ہمیشہ جاری رکھیں گے۔ بھارت لائن آف کنٹرول پر مسلسل جارحیت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ صدر ممنون حسین نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے طویل جنگ میں ہم نے غیر معمولی قربانیاں دی ہیں اس جنگ کے دوران ہمارے ہزاروں ہم وطنوں اور محافظوں نے جان و مال کی قربانی دی‘ ہمیں ان جانبار سپاہیوں اور شہریوں پر فخر ہے۔ میں توقع کرتا ہوں کہ ضرب عضب کی طرح آپریشن ردالفساد بھی جلد اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوگا اور ملک امن و امان کا گہوارہ بنے گا۔ بی بی سی کے مطابق ممنون حسین نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ قوم کے مختلف طبقات کے درمیان اختلاف رائے کا پیدا ہونا کوئی غیرمعمولی بات نہیں، لیکن اسے انتشار میں بدلنے سے روکا جانا چاہیے۔ موجودہ پارلیمان کے آخری سال کے آغاز پر جمعرات کو صدر نے سالانہ خطاب کے دوران حزب اختلاف کے ارکان نے دس منٹ تک شدید احتجاج کرنے کے بعد صدر کی تقریر کا بائیکاٹ کیا اور واک آﺅٹ کرگئے۔ تاہم صدر نے ’گو نواز گو‘ کے نعروں اور سیٹیوں میں اپنا 27 منٹ طویل خطاب جاری رکھا اور کہا کہ تاریخ اس پارلیمان کا کردار ہمیشہ یاد رکھے گی۔ مشترکہ اجلاس کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف، مسلح افواج کے سربراہان، وزراء اعلیٰ، چاروں صوبوں کے گورنر، وفاقی وزراء اور سفارت کار بھی مہمانوں کی گیلری میں موجود تھے۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ہونے والے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت کا کہنا تھا کہ پاکستانی جمہوریت نے بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں اور اب بھی پارلیمان کا حقیقی مقاصد کے حصول کی طرف سفر جاری ہے۔ ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے صدر ممنون حسین کا کہنا تھا قوم کے مختلف طبقات کے درمیان اختلاف رائے کا پیدا ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں، لیکن اسے انتشار میں بدلنے کا راستہ پوری حکمت عملی کے ساتھ بند کر دیا جائے تاکہ ملکی ترقی کو روکنے کا عمل ناکام بنایا جا سکے۔ اپوزیشن نے کہا ہے کہ صدر ممنون حسین کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب انتہائی مایوس کن تھا انہوںنے 4 سالوں کے دوران ایک بار بھی قومی معاملے پر بات نہیں کی ، حکومت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پوری قوم کو آج یہ دن دیکھنا پڑا،نہال ہاشمی نے نواز شریف کی زبان بولی ،اداروں کو جو دھمکی دینا تھی دے دی اب صرف دکھاوے کے لئے استعفے لئے جارہے ہیں ، پاناما لیکس اور ڈان لیکس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے واک آﺅٹ کرنے کے بعد قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا ہے کہ صدر ممنون حسین نے 4 سال میں ایک بار بھی قومی معاملے پر بات نہیں کی جس کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ایک سال سے ریاست میں انتشار پھیلا ہوا ہے لیکن صدر ممنون حسین نے اس کا نوٹس نہیں لیا، اس موقع پر تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پوری قوم کو آج یہ دن دیکھنا پڑا جس کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ آج صدر پاکستان کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی ذمہ دار خود حکومت ہے، حکومت نے اپنے ہی صدر کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ماضی میں کبھی نہیں دیکھا، حکومت نے اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپوزیشن کو احتجاج پر مجبور کیا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت خود بھی نہیں چاہتی تھی کہ صدر بغیر کسی شور شرابے کے اپنی تقریر کریں۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ پاناما لیکس اور ڈان لیکس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئی، نہال ہاشمی نے نواز شریف کی زبان استعمال کی، اور اگر نواز شریف آئندہ دو سال تک حکومت میں رہے تو نہال ہاشمی کو بطور انعام گورنر سندھ بنا دیا جائے گا، نہال ہاشمی کو لائن وہیں سے ملی تھی لیکن وہ تھوڑا آگے چلے گئے تھے۔ عمران خان نے اجلاس میں شرکت نہیں کی جبکہ اپوزیشن ارکان سیٹیاں بجاتے اور گو نواز گو کے نعرے لگاتے رہے۔ اپوزیشن نے شدید نعرے بازی کرکے ایوان میں ہنگامہ برپا کر دیا۔ صدارتی خطاب کی کاپیاں پھاڑ دیں ارکان نے 20 منٹ تک ایوان میں نعرے بازی کے بعد بائیکاٹ کر دیا بابر اعوان اور جمشید دستی نعرے لگواتے رہے متحدہ نے احتجاج میں حصہ لیا تاہم بائیکاٹ کا حصہ نہیں بنی۔
صدر خطاب

مزیدخبریں