اسمبلیوں کی تحلیل‘ الیکشن شیڈول کا اجرائ‘ نگران وزیراعظم کا حلف اور مقررہ وقت میں انتخاب کرانے کا عزم
پانچ سال کی آئینی مدت کی تکمیل کے بعد قومی اسمبلی اور پنجاب اور بلوچستان اسمبلیاں 31‘ مئی کو رات بارہ بجے تحلیل ہوگئیں اور امور حکومت و مملکت عبوری نگران حکومت کو منتقل ہوگئے۔ سندھ اور خیبر پی کے اسمبلیوں نے 28 مئی کو اپنی پانچ سال کی آئینی میعاد مکمل کرلی تھی جو نگران وزراءاعلیٰ کے فیصلہ کے بغیر ہی تحلیل ہوگئیں۔ اسی طرح مقررہ آئینی میعاد کی تکمیل تک پنجاب اور بلوچستان کے نگران وزرائے اعلیٰ کا بھی فیصلہ نہ ہو سکا جبکہ نگران وزیراعظم کیلئے قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن نے اسمبلی کی تحلیل سے دو روز قبل ہی جسٹس (ر) ناصرالملک پر اتفاق کرلیا تھا جنہوں نے جمعة المبارک یکم جون کو اپنے منصب کا حلف اٹھا لیا۔ صدر مملکت ممنون حسین نے ان سے حلف لیا‘ اس طرح انکی سربراہی میں وفاقی نگران حکومت تشکیل پاگئی جبکہ صوبوں میں نگران وزراءاعلیٰ کی نامزدگی الیکشن کمیشن کی جانب سے متعلقہ صوبوں کے سبکدوش ہونیوالے وزراءاعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کے بھجوائے گئے ناموں میں سے کی جائیگی۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے 25 جولائی 2018ءکے انتخابات کیلئے شیڈول بھی جاری کر دیا ہے جس کے تحت 2 جون تک امیدواروں کے کاغذات نامزدگی وصول کئے جائینگے‘ 14 جون کو انکی جانچ پڑتال ہوگی اور امیدواروں کی حتمی فہرست 27 جون کو جاری کی جائیگی۔ 29 جون کو انتخابی نشان الاٹ ہونگے اور 25 جولائی کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے پولنگ ہوگا۔ انتخابات کے انتظامات اور پولنگ کیلئے انتخابی عملہ کا پہلے ہی تقرر کردیا گیا ہے اور پولنگ والے دن سکیورٹی انتظامات کیلئے افواج پاکستان اور دوسرے سکیورٹی اداروں کی خدمات بھی حاصل کی جاچکی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے غیرملکی مبصرین کیلئے بھی ضابطہ¿ اخلاق جاری کردیا ہے۔
2013ءکی اسمبلیوں کا اپنی پانچ سال کی آئینی میعاد پوری کرنا اور آئینی تقاضے کے مطابق تحلیل ہونا بلاشبہ جمہوریت کے تسلسل اور استحکام کی علامت ہے۔ پانچ سال تک ایوانِ اقتدار میں رہنے والے حکمران اب سابق حکمران بن چکے ہیں اور جمہوریت کے تسلسل میں اگلی منزل کے حصول کیلئے 25 جولائی کے انتخابات پر قوم کی نگاہیں جم چکی ہیں اس لئے آئینی تقاضے نبھاتے ہوئے جمہوریت کے تسلسل کو اب بہرصورت نئی اسمبلیوں اور انکے ماتحت نئے سیٹ اپ کی جانب سفر کرنا ہے جس میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کرنے یا رخنہ ڈالنے کی کوئی گنجائش ہے نہ متعلقہ اداروں کی جانب سے کسی کو اسکی اجازت دی جائیگی۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی کے آخری اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کے تمام پارلیمانی قائدین نے مقررہ آئینی میعاد کے اندر ہی انتخابات کے انعقاد کیلئے اپنے عزم کا اظہار کیا اور اجلاس کی صدارت کرنیوالے ڈپٹی سپیکر نے دوٹوک الفاظ میں باور کرایا کہ انتخابات کے التواءکی سازش کرنیوالوں پر آئین کی دفعہ 6 لاگو ہوگی۔ اسی طرح نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصرالملک نے اپنے منصب کا حلف اٹھانے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے جہاں اپنی کابینہ مختصر رکھنے کا عندیہ دیا‘ وہیں انہوں نے زور دے کر کہا کہ ”میرے الفاظ یاد رکھیں‘ انتخابات مقررہ وقت پر ہونگے جس کیلئے الیکشن کمیشن کی مکمل معاونت کی جائیگی تاکہ بروقت شفاف انتخابات کرائے جاسکیں۔ “سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اپنے اقتدار کے آخری لمحے تک مقررہ آئینی میعاد کے اندر انتخابات کے انعقاد کیلئے پرعزم رہے ہیں اور دوٹوک الفاظ میں باور کراتے رہے ہیں کہ انتخابات میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں ہوگی۔ یہی واضح عندیہ گزشتہ روز الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی دیا گیا تھا جس کے ترجمان نے باضابطہ طور پر ایک بیان جاری کرکے اس امر کی وضاحت کردی تھی کہ اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کے 60 دن کے اندر الیکشن کرانا آئینی ضرورت ہے۔ اس آئینی تقاضے کے تحت ہی الیکشن کمیشن کی جانب سے گزشتہ روز انتخابات کا شیڈول بھی جاری کردیا گیا ہے جبکہ گزشتہ روز ایک درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی اپنے ریمارکس میں باور کرایا ہے کہ انتخابات ہر صورت مقررہ آئینی میعاد کے اندر ہی ہونگے اور اس معاملہ میں کسی کو کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ اس تناظر میں اب وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ سلطانی¿ جمہور کی ایک دہائی کی تکمیل نے جمہوریت کی بنیادیں مستحکم کردی ہیں اور اب جمہوریت کے تسلسل میں تیسری اسمبلی کے مقررہ وقت کے اندر انتخاب سے جمہوریت کے ثمرات براہ راست عوام تک پہنچنے کی راہ بھی ہموار ہو جائیگی اور جمہوریت مخالف جو عناصر کسی نہ کسی سازش کے تحت جمہوریت کی گاڑی کو ڈی ٹریک کرنے کیلئے انتخابات مو¿خر کرانے کے جواز نکالنے کی کوششوں میں مگن رہے ہیں‘ انہیں اب اس معاملہ میں ہزیمت ہی اٹھانا پڑیگی۔
دو روز قبل بلوچستان اسمبلی میں انتخابات مو¿خر کرانے کی قرارداد منظور ہوئی تو اس اسمبلی کے حوالے سے ماضی قریب میں رونما ہونیوالے واقعات کے تناظر میں انتخابات کے مقررہ وقت پر انعقاد کے حوالے سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جنہیں وزیراعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک کی جانب سے الیکشن کمیشن کو بھجوائے گئے مراسلہ سے مزید تقویت حاصل ہوئی اور پھر ایم کیو ایم پاکستان کے ڈاکٹر فاروق ستار نے انتخابات کے بائیکاٹ کا نعرہ لگا کر غیرجمہوری عناصر کی جانب سے انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے سازشی منصوبہ کی گرہیں مزید کھول دیں۔ اگر ان سازشوں کیخلاف قومی سیاسی قیادتوں اور متعلقہ آئینی ریاستی اداروں کی جانب سے فوری ردعمل سامنے نہ آتا تو اس سازشی منصوبے پر عملدرآمد کے راستے ہموار ہو سکتے تھے تاہم اب نگران وزیراعظم اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کی جانب سے بھی مقررہ میعاد کے اندر ہی انتخابات کے انعقاد کے واضح عندیہ کے بعد سازشی عناصر کیلئے جمہوریت کے تسلسل میں کسی بھی طریقے سے رخنہ ڈالنا ممکن نہیں رہا اور جمہوریت کا تسلسل اب تیسری اسمبلی کے انتخاب کا نقارہ بجا چکا ہے جس کیلئے پارلیمانی سیاسی جماعتوں نے بھی امیدواروں کی نامزدگی سمیت اپنی تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔
انتخابی میدان میں اترنے والی ایک دوسرے کی متحارب سیاسی قیادتوں کی بھی اب ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابی ماحول میں اختلاف رائے کے اظہار کو ذاتی دشمنی تک لے جانے سے گریز کریں اور سیاسی محاذآرائی کو ایک دوسرے سے ذاتی بدلے لینے کیلئے بروئے کار نہ لائیں۔ اگر سیاسی محاذآرائی میں تلخی اور کشیدگی کا عنصر شامل ہوگا تو یہی وہ واحد صورتحال ہوگی جس سے جمہوریت کیخلاف سازشیں کرنیوالے عناصر کو اپنے جمہوریت مخالف ایجنڈے کو پایہ¿ تکمیل کو پہنچانے کا موقع مل سکے گا کیونکہ جمہوریت کیخلاف سازشوں کے دوسرے تمام دروازے بند ہوچکے ہیں۔ اس تناظر میں اب سیاسی قیادتوں کا ہی اصل امتحان ہے کہ وہ جمہوریت کی گاڑی کو ٹریک پر رکھنے اور سبک خرام بنانے میں کتنے معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اگر نظریہ ضرورت کو سپریم کورٹ کے احاطہ میں دفن کرنیوالی عدلیہ کی طرح آج قومی سیاسی قائدین بھی متحد و یکسو ہو کر جمہوریت کیخلاف کسی ماورائے آئین اقدام کی کوئی گنجائش پیدا نہ ہونے دیں اور جرنیلی آمروں کو اپنا کندھا فراہم کرنے کی ماضی کی روش ترک کردیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ماورائے آئین اقدام والی سوچ اور خناس کو نظریہ¿ ضرورت کے ساتھ دفن نہ کیا جاسکے۔ اس حوالے سے آج قومی سیاسی قائدین کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ محلاتی سازشوں میں شریک ہونے کے ماضی کے داغ بھی دھوئیں اور آئندہ کیلئے ان سازشوں کو پنپنے بھی نہ دیں۔ جب محلاتی سازشوں کے نتیجہ میں جمہوریت ڈی ریل ہوتی ہے تو اس کا براہ راست نقصان سیاسی جماعتوں کو ہی اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ انہیں پھر بحالی ¿ جمہوریت کی کٹھن جدوجہد میں سالہا سال راندہ¿ درگاہ ہونا پڑتا ہے جبکہ جمہوریت کیخلاف کوئی اقدام ملک کی سالمیت پر بھی برے اثرات مرتب کرتا ہے۔ آج اس تناظر میں ہر ایک کیلئے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے اور ان غلطیوں کے اعادہ کی نوبت نہ آنے دینے کا موقع ہے۔ اس سے فائدہ اٹھا کر سلطانی¿ جمہور کا بول بالا کیا جا سکتا ہے بصورت دیگر جمہوریت مخالف قوتیں سر اٹھائیں گی تو جمہوری عناصر کیلئے اس سر کو کچلنا ناممکنات میں شامل ہو جائیگا۔