”لوگ اس وقفہ¿ ماتم کو سحر کہتے ہیں“

مقام شکر ہے کہ ارض وطن کے بے توا، بے بس اور اپنے وطن میں بے آسرا کروڑوں عوام کی دعائے نیم شب رنگ لائی ہے کہ برسہا برس سے آنکھوں دیکھی ان کے سینوں میں دبی ہوئی حقیقتیں طشت ازبام ہو رہی ہیں یہ اللہ کا کرم ہے کہ اس کی قدرت نے آئینی اور قانونی اداروں کی خوابیدہ صلاحیتوں کو انگڑائیاں لے کر بیدار ہونے کا راستہ دکھایا ہے۔ یہ ادارے ملک سے کرپشن اور بدعنوانی کے قلع قمع کرنے کے عزم کا اظہار کرنے لگے ہیں، ایک اس مقصد کی خاطر برملا طور پر ملکی وسائل اور مفلوک الحال عوام کے ٹیکسوں سے قائم قومی خزانے سے ہاتھ رنگنے والوں سے قومی سرمایہ واپس لینے کی نوید بھی سنائی دی جا رہی ہے ورنہ ایسی ستم پرورکارروائیوں کا تو قریباً پون صدی سے عوام میں سینہ بہ سینہ چلنے کا عمل جاری تھا، مگر ان بیچاروں میں یہ ہمت اور جرات نہ تھی کہ مسند اقتدار پر قوم و ملک کے خدا بنے عناصر کے خلاف زبان کو حرکت دے سکیں یہ صرف اور صرف آئینی اور قانونی اداروں ہی کو یہ شرف حاصل ہے۔ کہ انہوں نے نتائج سے بے پرواہ ہو کر ایسے راز کو طشت ازبام کرکے رکھ دیا ہے، اسی وجہ سے تو جمہوریت کے نام پر دونوں ہاتھوں سے قومی دولت کو سمیٹنے والے ہر شخص کی آنکھوں میں مقتدر آئینی اور قانونی ادارے کانٹا بن کر کھٹکنے لگے ہیں ان معدود سے چند عناصر نے جن کو چند ہزار خاندانوں سے عبارت کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کبھی عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کیلئے سوچنا تک گوارہ نہ کیا۔ ایسے ہی خاندانوں کے لوگ صوبوں اور وفاقی جمہوری اداروں میں عوام سے پرفریب نعروں اور دعوﺅں کے باعث داخل ہوئے، مخصوص مقاصد کے حصول کی خاطر ایوان اقتدار کے مکینوں نے مختلف علاقوں میں انفراسٹرکچر وغیرہ کی آڑ میں جس طرح عوام کی بھوک ننگ اور مفلوک الحالی کو دور کرنے کے کاموں سے آنکھیں چرائی رکھیںایسے مقاصد میں بھی ملکی اور قومی وسائل کو مخصوص عناصر تک محدود رکھنا تھا۔در حقیقت قومی اور ملکی حالات کی ایسی ہی ناگفتہ بہ حالت میں ملکی اداروں کی طرف سے عوام کی ترجمانی نے پوری فضا کو ہلا کر رکھ دیا جیسے کہ گزشتہ دنوں قومی احتساب بیورو کے چیئرمین مسٹر جسٹس (ر) جاوید اقال نے نیب لاہور میں ماڈل ہاﺅسنگ انیکلو کے سینکڑوں متاثرین میں چیک تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا اس تقریب کی تفصیلی رپورٹ روزنامہ نوائے وقت نے اپنے وقائع نگار خصوصی کے حوالے سے شائع کی۔ ایسی ہی مبنی پر حقیقت بانوں سے ارباب حکومت اور جمہوریت کی آڑ میں جمہوری اداروں سے بے جا یہ مراعات حاصل کرنے والے حکومتی ہمنواﺅں اور حاشیہ پر داروں کی ملکی اور قومی مفاد سے نام نہاد ہمدردی کے دعوے بے نقاب ہوئے ہیں۔ چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ جمہوریت کا بنیادی مقصد عوام کی خدمت ہے جب تک عوام کی خدمت نہیں ہو گی جمہوریت کی بقاءخطرے میں رہے گی۔ وہ ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتے جو جمہوریت کے لبادے میں کرپشن کو فروغ دیں۔ نیب کا یہ آخری فیصلہ ہے کہ نیب کرپشن کو ملک میں فروغ نہیں دینے دے گا۔ نیب کی کوئی امتیازی پالیسی نہیں ہے اس کے ذہن میں کوئی تعصب نہیں چیئرمین نیب نے اس موقع پر نیب کی متعدد ایسی کارروائیوں کے نتیجہ خیز ہونے کا بھی تفصیل سے ذکر کیا، جس کے تحت مختلف اداروں اور ہاتھوں میں لٹنے والے لاکھوں لوگوں کی داد رسی ہوئی اور انہیں کھوئی ہوئی رقوم واپس دلائی گئیں۔
چیئرمین نیب مسٹر جسٹس ( ر)جاوید اقبال نے کھلے لفظوں میں یہ چونکا دینے والی باتیں بھی کیں ان کا پر اعتماد لہجے میں کہتا تھا کہ جن کو اپنی منزل کا پتہ ہوتا ہے وہ قافلے رواں دواں رہتے ہیں بڑے جچے تلے الفاظ میں انہوں نے اپنی منزل کی اس طرح نشاندہی کی کہ ” یہ طے پا گیا ہے کہ ہمارا ہر قدم سپریم کورٹ آف پاکستان اور ہائیکورٹ کی گائیڈ لائن اور رہنمائی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہوگا، کوئی ایسا اقدام نہ کیا جائے کہ کوئی سمجھے ماورائے قانون ہے“۔انہوں نے یہ چشم کشا حقیقت بھی بیان کی کہ قومی احتساب بیورو نے دھوکہ دہی سے عوام کو لوٹنے والوں کو احتساب کی گرفت میں لا کر متاثرین کی بڑی تعداد کو ان کی لوٹی ہوئی رقوم واپس دلائی ہیں۔حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ چند ہزار خاندانوں کی کرپشن کے دلدل میں دھنسے ہونے کے انکشافات دن بدن واضح ہو رہے ہیں“ جس کے نتیجے میں غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں بے بسی کی زندگی بسر کرنے والے کروڑوں عوام کی اپنی محرومیوں اور کسمپرسی کی زندگی کی وجودہ کو سمجھنے میں مدد ملی ہے اور انہیں یہ شعور حاصل ہو گیا ہے کہ ان کی اقتصادی اور معاشی تباہی و بدحالی کی ذمہ داری انہی چند ہزار خاندانوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے ملکی اور قومی وسائل کی متصفانہ تقسیم کے اصولوں کی دھجیاں اڑا کر تمام وسائل کا رخ اپنی طرف مخصوص کئے رکھا۔ چنانچہ ملک کو کرپشن اور بدعنوان عناصر سے نجات دلانے کا عزم رکھنے والے قومی اور آئینی اداروں کی کارروائیوں سے معاشرے کے چیرہ دست عناصر کے خوف سے بے پروا ہو کر سرِ عام بدعنوان عناصر کے بارے میں زبان کھولنے کی ہمت اور جرات پیدا ہو چکی ہے اور مفلس و قلاش عوام میں اس قسم کے سوالات زبان زدعام ہیں کہ کرپشن اور بدعنوان عناصر کو ملک اور اس کے معاشرے سے پاک کرنے کی کارروائیاں کب تک نتیجہ خیز ہوں گی ۔ کرپشن ہی کے حوالے سے جہاں ملک میں اور بہت سے انکشافات گردش میں ہیں وہاں صوبہ میں 56 کمپنیوں کا نام بھی سنا جا رہا ہے۔ ان کمپنیوں میں سے اکثر کے ناموں تک سے ملک کے عوام آگاہ نہیں۔ یہ کمپنیاں ان لاتعداد سینکڑوں سرکاری محکموں کے علاوہ ہیں جو بعض کمپنیوں ہی کی طرح کے فرائض کی ادائیگی کیلئے برسہابرس سے قائم ہیں۔ یہ کمپنیاں براہ راست حکومت کے کسی عزت مآب کی براہ راست سرپرستی یا نگرانی میں کام کر رہی ہیں۔ اس کے بارے میں ان بیچارے عوام کو قطعی طور پر علم نہیں جن غریبوں کے ٹیکس سے ایسی کمپنیوں کے اعلیٰ حکام نا قابل یقین حد تک بھاری رقوم سے عبارت تنخواہیں اور دیگر مراعات حاصل کر رہے ہیں ایسی کمپنیوں کے بارے میں امور مملکت نے لاتعلق رکھے جانے والے عوام اس حقیقت کو جاننے کی بھی خواہش کئے ہوئے ہیں کہ ان56 کمپنیوں کے انتظامی حکام، بورڈ آف ڈائریکٹرز، ایگزیکٹو، ڈائریکٹر،مشیران، ٹیکنیکل ڈائریکٹر، ضروری آلات کی فراہمی کے سپلائرز، رجسٹرڈ ٹھیکیدار وغیرہ ایسے ذیلی اور اعلیٰ شعبوں میں کون کون سے لوگ شامل کئے گئے ہیں اور وہ کن خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اب وہ دورگیا جب عوام ملکی معاشرے مختف ذرائع سے اپنے زیر تسلط رکھنے والے چیرہ دستوں کے خوف سے مہربلب رہتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے اب ارباب اقتدار کی طرف سے دانستہ طور پر تعلیم سے دور رکھنے کی پالیسیوں کے باوجود کرپشن ، اس کے محرکات اور اس کے مرتکب عناصر کو پہچاننے لگے ہیں۔ عوام کے سینوں میں دبی دبی باتیں اب چنگاریاں بن کر سلگنے لگی ہیں۔ زندگی کے تمام تر شعبوں میں شرف انسانی کو پامال کرنے کے اقدامات روا رکھنے والے ہاتھوں کو اب بے بس کروڑوں عوام جان چکے ہیں انہیں اس حوالے سے مافیا اور ”گاڈ فادر“ کے مفہوم سے بھی آشنائی ہو گئی ہے کہ انہیں جسم اور روح کا رشتہ بحال رکھنے والی لازمی اشیاءکی عدم فراہمی کے پس پردہ کونسا ”مافیا“ سرگرم عمل ہے اور ان کا ”گاڈ فادر“ کون ہے۔ بلاشبہ پاکستان کے فاقہ کش مفلس اور زندگی کی تمام تر سہولتوں سے یکسر محروم عوام کا یہ ”شعور آگہی“ملک میں کرپشن کی آگ کی اس تپش کا مرہون منت ہے جو بدعنوان عناصر نے اللہ اور رسول کے نام پر قائم ہونے والے ملک اور اس میں بسنے والی مخلوق خدا کی دولت سمیٹ کر انہیںکنگال کرنے دانستہ محض اس لئے لگائی تھی کہ مکانات عمل ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔
” مکافات عمل کے نتائج کیا ہوں گے اس کے حوالے سے کچھ اندازہ لگانا انسان کے بس کی بات نہیں مگر اسی تناظر میں احمد ندیم قاسمی کا بڑا معنی خیز اور خوبصورت شعر ہے:
رات جل اٹھتی ہے جب شدت ظلمت سے ندیم
لوگ اس وقفہ¿ ماتم کو سحر کہتے ہیں

ای پیپر دی نیشن