نگران وزیراعظم نے حلف اٹھا لیا‘ انتخابات بروقت‘ شفاف ہونگے : ناصر الملک‘ 25 جولائی فائنل‘ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے : چیف جسٹس

اسلام آباد (سپیشل رپورٹ+ وقائع نگار خصوصی) نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصرالملک نے گزشتہ روز اپنے عہدہ کا حلف اٹھا لیا۔ ایوان صدر میں تقریب میں صدر ممنون حسین نے نگران وزیراعظم سے ان کے عہدہ کا حلف لیا۔ حلف برداری کی تقریب میں چیئرمین سینٹ، مسلح افواج کے سربراہوں، سابق وفاقی وزرا، اعلیٰ سرکاری حکام اور مختلف ملکوں کے سفیروں نے شرکت کی۔ حلف برداری میں صدر ممنون حسین، نگران وزیراعظم ناصرالملک اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے تقریب کے شرکاءسے ملاقاتیں بھی کیں۔ تقریب حلف برداری میں سابق مشیر سرتاج عزیز، سابق وزرا مشاہداللہ، پیر حسنات حسین، ریاض پیرزادہ، ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار، گورنر خیبرپی کے اقبال ظفر جھگڑا، وزیراعظم کے سابق مشیر عرفان صدیقی، ماروی میمن، کشمالہ طارق بھی موجود تھے۔ قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق حلف برداری کی تقریب میں شریک نہیں ہوئے۔ سبکدوش ہونے والے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ تینوں مسلح افواج کے دستوں نے سلامی پیش کی۔ جسٹس ناصرالملک پاکستان کے ساتویں نگران وزیراعظم مقرر ہوئے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے وزیراعظم ہاﺅس سے روانگی پر اپنے عملے سے الوداعی ملاقاتیں کیں۔ وزیراعظم کے عہدے کی مدت مکمل ہونے پر شاہد خاقان عباسی کی سبکدوشی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔

ناصرالملک

اسلام آباد (جاوید صدیق) نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصرالملک نے کہا ہے کہ ملک میں آزاد اور منصفانہ انتخابات کرانا ان کی ذمہ داری ہے اور وہ یہ ذمہ داری پوری کریں گے۔ ایوان صدر میں نگران وزیراعظم نے منصب کا حلف اٹھانے کے بعد نوائے وقت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا وہ اس چیلنج پر پورا اترنے کی پوری کوشش کریں گے۔ نگران وزیراعظم سے استفسار کیاگیا کہ ان کے خیال میں ملک میں موجودہ ماحول میں منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کرانا ایک چیلنج نہیں تو نگران وزیراعظم نے کہا کہ یہ چیلنج ہے‘ وہ اس پر پورا اترنے کی کوشش کریں گے۔ نگران وزیراعظم سے پوچھا گیا کہ قوم یہ توقع کر رہی ہے کہ اگلے انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوںگے تو نگران وزیراعظم نے کہا کوشش کروں گا کہ عوامی توقعات پر پورا اتروں۔ نگران وزیراعظم نے کہاکہ کوشش کریں گے کہ کابینہ کے ارکان کی تعداد کم سے کم رکھی جائے۔ جلد نگران کابینہ کا اعلان کر دیں گے۔ ناصرالملک نے کہا کہ میرے الفاظ یاد رکھیں کہ انتخابات مقررہ وقت پر اور شفاف ہوںگے۔ الیکشن کمشن کی مدد کی جائے گی تاکہ بروقت اور شفاف انتخابات کرائے جا سکیں۔ بعدازاں نگران وزیراعظم کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔
حلف برداری

لاہور (وقائع نگار خصوصی) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے انتخابی ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کے لئے دائر درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ کسی کو غلط فہمی نہیں رہنی چاہیے، 25 جولائی کی تاریخ فائنل ہے۔ انتخابات 25 جولائی کو ہی ہوںگے اور تاخیر نہیں ہونے دیں گے۔ گزشتہ روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بنچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں الیکشن کمشن کے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کے لئے دائر درخواست کی سماعت کی۔ قانون دان بلال حسن منٹو نے درخواست میں موقف اختیار کیا الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق جاری کیا جس کے تحت انتخابات میں اخراجات کی حد مقرر کی گئی تاکہ عام شہری بھی انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لے سکیں۔ تاہم اس پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے عام لوگ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔ درخواست میں استدعا کی گئی الیکشن کمیشن کو اپنے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا حکم دیا جائے۔ سماعت کے دوران جسٹس میاں ثاقب نثار نے واضح کیا کہ انتخابات میں تاخیر نہیں ہونے دیں گے، عام انتخابات اپنے وقت ہوں گے اور کسی کو کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ عدالت نے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کے لئے درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کرلیا۔ اصغر خان کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت ایک ذیلی کمیٹی بنا کر بھاگ گئی۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل عدالت میں پیش نہیں ہوئے، ان کی جگہ ڈپٹی اٹارنی جنرل کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گزشتہ روز کابینہ کے اجلاس میں کیا فیصلہ ہوا؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کابینہ نے مثبت فیصلہ کرلیا ہے اور اٹارنی جنرل پیش ہوکر عدالت کو آگاہ کریں گے۔ اشتر اوصاف کے پیش نہ ہونے پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اتنا اہم کیس لگا ہوا ہے، لیکن اٹارنی جنرل کو پروا نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وفاقی کابینہ نے اصغر خان کیس عملدرآمد کے معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں کیا، کئی سالوں سے یہ کیس پڑا ہے، کیا کابینہ کا یہ کام ہوتا ہے ؟ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ایک سب (ذیلی) کمیٹی بنا کر حکومت بھاگ گئی۔ سماعت کے بعد عدالت عظمی نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کو آج (ہفتہ کو) طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔ سپریم کورٹ نے وزیراعظم کی منظوری کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے لگژری گاڑیوں سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت (آج) تک ملتوی کردی۔ عدالتی حکم پر سابق وفاقی وزیر قانون زاہد حامد عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ تین لگژری گاڑیاں کس حیثیت سے استعمال کررہے ہیں؟ زاہد حامد نے بتایا کہ میرے زیر استعمال ایک گاڑی تھی۔ کابینہ ڈویژن کی منظوری سے گاڑی استعمال کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وزراءکتنے سی سی گاڑی رکھنے کا استحقاق رکھتے ہیں؟ زاہد حامد نے اظہار لاعلمی کرتے ہوئے بتایا کہ میرے علم میں نہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزراء1800 سی سی گاڑی کا استحقاق رکھتے ہیں۔ چیف جسٹس نے زاہد حامد سے استفسار کیا کہ قوانین دیکھے بغیر گاڑی کا استعمال کیسے شروع کردیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیراعظم نے سکیورٹی خدشات کے پیش نظر بڑی گاڑیوں کی منظوری دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بیرون ملک تو وزیراعظم ایک کھوکھا بھی نہیں دے سکتا۔ جائزہ لیں گے وزیراعظم نے کس قانون کے تحت منظوری دی۔ عدالت نے وزیراعظم کی منظوری کا ریکارڈ (آج) ہفتہ کو طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزراءکھاتے پیتے لوگ ہیں اپنی گاڑیاں کیوں نہیں رکھتے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ استحقاق کے بغیر دی گئی تیس گاڑیاں واپس لے لی ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ٹیکس گزار رو رہا ہے اور وزیر ڈھائی ڈھائی کروڑ روپے کی گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں۔ بعدازاں عدالت نے درخواست پر مزید سماعت آج تک کیلئے ملتوی کر دی۔ این آئی سی ایل کیس میں سپریم کورٹ نے ملزم محسن وڑائچ کو گرفتار کرکے پیش کرنے کیلئے ایف آئی حکام کو ایک ہفتہ کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔ ایف آئی اے حکام کاکہنا تھا کہ ملزم کی گرفتاری کیلئے تمام تکنیکی ذرائع استعمال کر رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مجھے آپ سے زیادہ پتہ ہے کہ ملزم کو گرفتار کیوں نہیں کیا جا رہا؟ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جیسے راﺅ انوار کو گرفتار کیا وہی طریقہ اپنانا پڑے گا۔ مقدمے کی ایک دن کی تاخیر بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ سپریم کورٹ نے ایف آئی حکام کو ملزم محسن وڑائچ کو گرفتار کے ایک ہفتہ میں پیش کرنے کی مہلت دی۔ عدالت نے این آئی سی ایل کیس کی سماعت ایک ہفتے کیلئے ملتوی کر دی۔ دریں اثنا سپریم کورٹ میں پنجاب کی پبلک سیکٹر یونیورسٹیز میں مستقل وی سیز کی تعیناتیوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ اے جی پی نے بتایا کہ وی سی لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کی معطلی کا حکم نامہ نہیں ملا۔ تحریری حکم نامہ نہ ملنے سے مشکلات پیش آرہی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے عظمیٰ قریشی کے معاملے پر کون مشکلات پیدا کررہا ہے۔ ایک سیاسی شخصیت ہیں جنہیں بہت باتیں کرنا آتی ہیں۔ لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کی وی سی کی تقرری سے متعلق کیس کی سماعت (آج) ہفتہ تک ملتوی کر دی گئی۔ چیف جسٹس پاکستان نے لاہور کالج فار وومین یونیورسٹی کی اراضی سگنل فری کوریڈور منصوبے کے لئے دینے کا ازخود نوٹس لے لیا۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کمشن کو آج ریکارڈ سمیت طلب کر لیا۔ یونیورسٹی کی اراضی کس بنیاد پر سڑک کی تعمیر کے لئے دی گئی۔ سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر وضاحت کریں۔
چیف جسٹس

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...