ملک مقبول احمد صاحب مقبول اکیڈمی کے بانی ہیں جسے انہوں نے ایک ایمپائر کا درجہ دے دیا تھا۔ ملک مقبول احمد سے جب کبھی ملاقات ہوتی ہے کئی واقعات ماضی کے جھرکوں سے جھانکنے لگتے ہیں۔ مجھے ان سے پہلی ملاقات آج بھی اچھی طرح سے یاد ہے۔ میرے ایک بہت پیارے دوست بلیغ الدین جاوید تھے۔ وہ ایک دن تشریف لائے۔ تو ان کے ہمراہ ایک سادہ سا شخص بھی تھا جاوید نے تعارف کروایا کہ یہ ملک مقبول احمد ہیں۔ میرے بارے میں بتایا کہ یہ خالد چودھری ہیں جنہیں کاروبار اِن کے والد چودھری برکت علی مرحوم سے ورثے میں ملا ہے۔ جاوید نے مزید بتایا کہ خالد کے والد چودھری برکت علی مرحوم نے 1929ء میں پنجاب بکڈپو قائم کیا۔ مرحوم نے ہندوئوں کے زمانے میں کتابوں کا کاروبار اور پھر 1935ء میں ماہ نامہ ادب لطیف اور مکتبہ اُردو قائم کیا جو اب اُن کی صاحبزادی صدیقہ بیگم شائع کر رہی ہے۔ ان کے بھائی چودھری ظر علی اور محمد خالد چودھری مدد کر رہے ہیں۔ یہ سن کر ملک مقبول احمد نے کہا میں لاہور 1958ء میں آیا تھا اُس وقت چودھری برکت علی وفات پا چکے تھے۔ افسوس ہے کہ میں اُس عظیم انسان کو نہ دیکھ سکا یہ ملک مقبول احمد سے پہلی ملاقات تھی۔ جو دوستی میں تبدیل ہو گئی اور اب تک اُن کے خلوص محبت اور بھائی چارے میں فرق نہیں آیا۔ میں بھی اُن سے دلی محبت کرتا ہوں۔ انہیں اپنا بڑا بھائی خیال کرتا ہوں۔ اگلے دن میری دوکان پر تشریف لائے تو اُن کے ہاتھ میں ایک کتاب سفر جاری ہے تھی جو اُنہوں نے میری طرف بڑی محبت سے بڑھا دی اور میں نے ان کا تحقہ قبول کرتے بے حد مسرت محسوس کی۔سفر جاری ہے ملک مقبول احمد کی زندگی کی کہانی ہے۔ اس میں انہوں نے بتایا کہ انہیں کتابوں کے کاروبار میں کیسی کیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ملک مقبول نے ہمت نہ ہاری۔حتیٰ کہ اپنی کاروباری برادری کی مخالفت کا سامنا بھی کیا ۔ اور نوبت خطرناک مرحل تک آ پہنچی۔ یہاں وہ سب معرکوں سے سرخرد ہو کر نکلے۔ کیونکہ اِن کی نیت نیک اور لگن خالص تھی۔ ملک مقبول صاحب نے زندگی خود بتائی ہے اور ان کی محنت کو اللہ تعالیٰ نے قبول کیا اور ان کے کاروبار کو وسعت دی۔ یہ تمام واقعات میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ اور راہنما سے محنت کا نتیجہ خدا پر چھوڑنے کا سبق سیکھا ہے۔ملک صاحب کی عظمت یہ ہے کہ اپنی کتاب مجھے دینے کے لئے خود تشریف لائے اور بڑی محبت سے کام کتاب عنائت کی انہوں نے اپنی جوانی کی روحانی فتوحات کا تذکرہ تو کیا ہی ہے۔لیکن اپنی کمزوریوں پر پردہ نہیں ڈالا۔ اس کتاب سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ملک مقبول کتابیں لکھنے والوں کا کتنا احترام کرتے ہیں اور کس طرح ان سے اپنی محبت بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ میں انہیں خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ انہیں اے حمید، رئیس احمد جعفریِ، ڈاکٹر صفر بزرا ادیب، طارق اسماعیل ساگر، ڈاکٹر انور سوید، غلام الثقلین نقوی، علی سفیان آقاقی، ادا جعفری‘ بلقیس ریاض، عذرا اختر اور قمر نقوی ہے۔ مصنفین کا تعاون حاصل ہوا بلاشبہ آج وہ ملک کے بہت بڑے ناشر ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ کتابوں کا ایک سلطنت کے بانی ہیں۔ ان کا یہ کتاب اس کاروبار میں شامل ہونے والوں کو کامیابی کا راستہ دکھا سکتی ہے۔
یہ کتاب لکھنے پر ملک مقبول احمد کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اللہ ان کی کامیابیوں کا یہ نعرہ جاری رکھے۔ ان کے بچے داکٹری کا پیشہ چھوڑ کر ان کی راہ پر چل رہے ہیں۔ وہ لوگوں کا جانی علاج کرنے کی بجائے ان کا روحانی علاج کررہے ہیںخدا اِن کے کاروبار میں برکت دے۔ اِن خاندان نے کتابوں کے کاروبار کو وقار عطا کیا ہے۔آج اُن کی موت کا سُن کر دلی دکھ ہوا ساری رات سویا نہیں۔ اُن کی یادیں آتی رہی عظیم انسان تھیدعا ہے کہ اللہ رب العزت ملک مقبول احمد کے درجات بلند فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ جگہ عطا فرمائے (آمین) اور ہمیں صبر عطا فرمائیں۔