اِ یہہ دُکھ جا کہُوں کِس اَگیــــ ۔۔۔۔۔

Jun 02, 2019

میاں غلام مرتضیٰ

تھانہ کسی بھی شہر یا صوبے کا ہو، اس کی فضا میں خوف و ہراس اور عدمِ تحفظ کا احساس نمایاں ہوتا ہے۔ اسلام آباد کے نواحی علاقے شہزاد ٹائون کے تھانے کاحال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ تھانے کے سہمے ہوئے اور خاموش ماحول میں کام ہو رہا تھا۔ ایس ایچ او کو شام کے اوقات میں سائلین سے ملاقات کرنا ہوتی ہے۔ وہ تھانے کے صحن میںکُرسیاں بچھا کر بیٹھا تھا۔ ائیر کولر کی ٹھنڈی ہوا میں اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ لاڈا ورپیار سے باتیں کر رہا تھا۔ محرر کے کمرے کی صفائی میں مصروف ایک شخص نے خُود کلامی کرتے ہوئے کہا’’ایس ایچ او ! ہمارا گمشدہ بیٹی کو تلاش کرو‘‘ اللہ تمہارا بھلا کرے گا۔ ہمارا بیٹی واپس ملے گا تو ہم بھی اُس کے ساتھ اِسی طرح لاڈ اور پیار سے باتیں کرے گا، جیسے تم اپنے بچوں کے ساتھ کر رہے ہو‘‘۔ اس شخص کی دس سالہ بیٹی چار روز پہلے گُم ہو گئی تھی۔ بچی کے لواحقین اور اہل محلہ صُبح شام روزانہ تھانے میں حاضری دے رہے تھے لیکن ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ روائیتی انداز میں پولیس اہل کاروں اور ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ لڑکی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ اپنے رہائشی علاقے میں معلومات کرو، چند روز میںخود ہی واپس آجائے گی انتظار کرو۔‘‘لڑکی کے غم ز دہ باپ، بھائی اور دیگر رشتہ داروں سے تھانے کے مختلف حصّوں کی صفائی کروائی جاتی رہی۔قریبی دکانوں سے پولیس اہل کارسگریٹ افطاری اور سحری کا سامان (کھجوریں، سموسے، پکوڑے، پھل اور برف وغیرہ) بھی منگواتے رہے۔ ایس ایچ او کے کمرے کے اٹیچ باتھ کی صفائی کرتے ہوئے گمشدہ لڑکی کے بھائی نے آنسوئوں کے ساتھ پوچھا‘‘ صاب ! ہم سارا کام کر رہا ہے، میری بہن کو جلدی تلاش کردو گے؟‘‘ ایسے سوالات کے جواب میں پریشان حال باپ اور بیٹے کوطِفل تسلیاں دی جا رہی تھیں۔ ایک خاص پولیس اہل کار ہر روز نذرانہ لے کر آنے کا پیغام دے رہا تھا۔ بیس پچیس ہزار کی بجائے دس ہزار روپے میں معاملہ طے ہُوا تو گُم شُدگی کی رپورٹ چار دن بعد درج کر لی گئی۔ لڑکی کے ورثاء پولیس کے کارنامے کے منتظر تھے۔ اگلے روز قریبی جنگل میں ایک لڑکی کی لاش ملنے کی اطلاع آئی تو غم زدہ باپ اور بھائی دیگر افراد کے ہمراہ وہاں پہنچ گئے۔ لڑکی کی تشدد زدہ لاش کو جان وروں نے کئی جگہوں سے نوچا ہُوا تھا۔ چہرہ مسخ ہو چکا تھا تاہم باپ نے بیٹی’’ فرشتہ‘‘ کی لاش کو چادر سے پہچان لیا۔ وہ بیٹے سے لپٹ کر رونے لگا۔ اغواء کرنے والوں نے ان کی عزت کا جنازہ نکال دیا تھا اور پھر بچ نکلنے کے لئے اس کا گلا گھونٹ کر جنگل میں پھینک دیا تھا۔ یوں ایک باپ کے اَرمان دل ہی میں رہ گئے اور وہ بیٹی سے لاڈ اور پیار کی باتیں نہ کرسکا۔
اس سانحہ پر لوگوں نے احتجاج کیا تو ورثاء کو دھمکیاں دے کر خاموش کرانے کی کوشش کی گئی۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر شور ہُواتو وزیرِ اعظم نے نوٹس لیا ایس ایچ او کے ساتھ محرر کے خلاف مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کیا گیا۔ ڈی ایس پی کو غفلتِ مجرمانہ پر معطل اور ایس پی کو تبدیل کردیا گیا ہے۔اگر ایس ایچ او رشوت وصول کرنے کے لئے تاخیری حربے نہ استعمال کرتا۔’’فرشتہ‘‘ کی فوری تلاش کی جاتی تو شاید وہ زندہ مل جاتی۔ پولیس کا یہ رویہ جبراً تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔کہا جا رہا ہے کہ قاتلوں کا سُراغ لگا کر کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ جس طرح پانی کے سمندر میں بڑی مچھلی چھوٹی مچھلیوں کو ہڑپ کر جاتی ہے اِسی طرح ہماری سوسائٹی میں خبروں کے سمندر میں بھی یہ ہوتا ہے کہ اہم خبروں کے شور میں چھوٹی خبریں دب کر رہ جاتی ہیں۔ ڈالر کی اُونچی اُڑان اور نیب کے خلاف پراپیگنڈے کے شور میں وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب عمران خان کے احکامات دَب کر رہ گئے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ تقریباً پندرہ دن گزرنے کے بعد بھی قاتل پکڑا نہیں جا سکا۔ یقین دہانیاں ہی کروائی جا رہی ہیں۔ قاتل تک پہنچنا ایک چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ میڈیا اورسوشل میڈیا کی وجہ سے یہ اور ایسے کئی کیس دبائو کی وجہ سے انتظامیہ اور پولیس کو حل کرنا پڑ رہے ہیں لیکن بُنیادی بات پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ اگر پولیس کا رویہ مُجرمانہ غفلت کی وجہ سے روائیتی ہوگا۔ ہر شکایت پر ذمّے داری اور جواب دہی کے خوف سے ایکشن کی بجائے لوگوں کو رشوت دینے پر مجبور کیا جائے گا تو کس طرح ایسے سنگین اور دِل دہلا دینے والے جرائم کم ہو سکیں گے۔
المیہ یہ ہے کہ کبھی کبھار وزیرِاعلیٰ یا وزیرِ اعظم کے احکامات پر پولیس اور انتظامیہ کو ایکشن لینا بھی پڑتا ہے تو اس میں بھی مجرموںکے خلاف سخت کارروائی نہیں ہوتی۔ پولیس اور انتظامیہ کے ذمّے داران کے خلاف وقتی ایکشن ہوتا ہے۔ سخت اور مثالی سزائیں دینے کی طرف بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے اغواء اور زیادتی کے بعد معصوم بچوں اور نوجوان لڑکیوں کو قتل کرنے والے سنگ دل اور سفاک مجرموں کو روزانہ سماعت کر کے سرِ عام سزا دینے کا سلسلہ شروع ہو تو پھر بات بنے گی۔ کیا حُکمرانوں اور معاشرے کی بے بسی اور بے حسی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ہم صحیح ٹریک پر چل کر یہ سنگین مسائل حل نہیںکر سکتے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ فرشتہ کے قاتل فوری پکڑے جائیں اور انہیں مثالی سزا سرِ عام دی جائے۔ شاید اسی وقت کے لیے ستارویں، اٹھارویں صدی کے کامل صُوفی فقیر حضرت بابا بُلھّے شاہ نے کہا تھا کہ’’ اِیہہ دُکھ جا کہُوںکِس اَگے؟؟؟

مزیدخبریں