مودی نے کیسے بھارت کو حسد و نفرت سے بہکایا

نیو یارک ٹائمز میں پنکج مشرا کا ایک تہلکہ خیز مضمون شائع ہوا ہے جس میں ان اسباب کا احاطہ کیا گیا ہے جو مودی کی ناقابل یقین کامیابی کا سبب بنے ہیں۔ مشرا ایک نامور کالم نگار اور تایخ داں ہیں۔ ان کا قلم انصاف پسند اور محب وطن ہے۔ انہیں برصغیر کی ثقافت، متنوع زندگی سے بہت پیا رہے۔ وہ اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں متفکر ہیں۔ اس تحریر میں ان کا دکھ، اندیشے اور خوف صاف نظر آرہے ہیں۔ ہم اس طویل مضمون کا ترجمہ دو اقساط میں نذر قارئین کر رہے ہیں۔
"چھبیس فروری کی صبح ہونے سے پہلے، بھارت کے ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے نیوکلر آرمڈ پڑوسی پاکستان پر فضائی حملے کا حکم دیا۔ اس روز بارڈر پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔ لیکن اس ماہ کے شروع میں مودی نے اپنی کامیاب انتخابی مہم کے دوران یہ دعوی کیا ہے کہ یہ فیصلہ کرتے وقت اس نے اپنے مشیروں کے مشورے کو رد کردیا تھا جنھوں نے ان کے فیصلے پر تشویش کا اظہا کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں سائنس نہیں جانتا لیکن میں نے اپنی ’’خام دانشمندی ‘‘ (Raw Wisdom)پر بھروسہ کیا کہ گہرے بادلوں کیوجہ سے پاکستانی ریڈار بھارتی لڑاکا طیاروں کا پتہ نہیں چلا سکیں گے۔
مودی سرکار کے پانچ سالوں میں بھارت متعدد بار اس کی "خام دانشمندی" کا شکار ہوا ہے۔اس میں سب سے زیادہ نا معقول چھبیس نومبر دو ہزار سولہ کا وہ فیصلہ تھا جس کے تحت حکومت نے اچانک نوے فیصد زیر گردش کرنسی نوٹس منسوخ کردیے۔ بھارتی معیشت کو برباد کرنے سے پاکستان کے ساتھ قیامت برپا ہونے کا خطرہ مول لینے کے واقعات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا لیڈر خطرناک حد تک نا اہل ہے۔اس موسم بہار کی مہم میں اس نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ وہ ایک غیرتعمیر شدہ مذہبی متعصب ، ہندو بالا دستی کا علمبردار ہے جو خوف اور نفرت کوسیاسی ہتھیاروں کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
مودی سرکار میں بھارت حقیقی اور مجازی (virtual) دونوں دنیاؤں میں مسلسل پْرتشدد واقعات کا سامنا کرتا رہا ہے۔ جب مودی کے حامی ٹی وی اینکرز "قوم پرستی کے مخالفوں " کا شکار کررہے تھے اور اس کی ٹرول (troll) افواج سماجی میڈیا پر تباہی پھیلارہی تھیں، عورتوں کو آبروریزی کی دھمکیاں دی جارہی تھیں، اس وقت بلوائیوں کے گروہ مسلمانوں او ر نچلی ذات کے ہندوئوں کو ذبح کررہے تھے۔ ہندو بالا دستی کے پرچارکوں نے ملٹری، عدلیہ، میڈیا اور یونیورسٹیوں سمیت تمام اہم اداروں پر قبضہ کرلیا ہے اور ان کے اثرات ان میں سرایت کرچکے ہیں۔ دوسری جانب ان کے مخالف اسکالرز اور جرنلسٹس کو قتل اور بلاوجہ گرفتاری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بلا خوف و خطر اس طرح کے بیہودہ دعوے کرنے والے کہ ہندو وں نے قدیم زمانے میں جینیاتی انجینئرنگ اور ہوائی جہاز دریافت کرلیا تھا، مودی اور اس کے ہندو قوم پرست حامیوں نے سارے ملک کو پاگل پن کے شعلوں میں دھکیل دیا ہے۔گذشتہ ماہ بھارتی آرمی کے ٹوئٹر اکاونٹ سے پرجوش انداز میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ اس نے دیو ہیکل قدیم انسان "یئٹی (Yeti) " کے قدموں کے نشان ڈھونڈ لیے ہیں۔لیکن اس سب کے باوجود ایک ماہ قبل شروع ہونے والے چناؤ میں عوام نے ایک بار پھر یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ ڈراؤنا خواب ابھی مزید چلے گا۔ مودی کے ناقابل تسخیر کرشمے کے ذرائع درحقیقت بہت پراسرار ہیں، خصوصاً جب ہم یہ بات ذہن میں رکھیں کہ وہ دو ہزار چودہ کی مہم میں کیے جانے والے اپنے مرکزی وعدوں کا پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے: روزگار اور قومی سلامتی۔ اس کی سرکار میں بیروزگار کی شرح ملک کی تاریخ کی سب سے زیادہ ہے اور اس کے دور میں کشمیر میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔اس کی فروری میں پاکستان کے خلاف زیادہ مشتہر اور سنسی پھیلانے والے تادیبی کاروائی سرحد کے پار سوائے چند درختوں کو اکھاڑنے سے زیادہ کچھ اور ثابت نہیں ہوئی، جبکہ بھارت کی سات جانیں اپنے دوستانہ فائر کا شکار ہوگئیں۔
لیکن اس دفعہ مودی کو انتخابی مہم میں اس بات کا فائدہ ہوا ہے کہ اس نے بڑے پیمانے پر ان اسکیموں کو مشتہر کیا جس میں ٹائلٹ، بینک اکاؤنٹ، سستے قرضے، ہاؤسنگ، بجلی اور گیس سیلنڈز وغیرہ کو کچھ غریب ترین لوگوں تک پہنچایا ہے۔ بڑے کاروباری افراد اور کمپنیوں کیطرف سے فراخدلانہ چندے نے اس کی مہم کو اوروں کے مقابلے میں بہت زیادہ وسائل خرچ کرنے کی صلاحیت دی۔ انہی کاروباری حلقوں کی ملکیت میڈیا نے اس کی مہم کو جوش و جذبے سے چلایا اور اس کو ایک نجات دہندہ کی حیثیت سے پیش کیا۔ اس ضمن میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی یہ شکایت درست ہے کہ بھارتی الیکشن کمیشن جس کی ساکھ ایک آزاد اور غیر جانبدار ادارے کی رہی ہے وہ شرمناک حد تک جانبداری کا مرتکب ہوا ہے۔لیکن ان میں سے کوئی بھی عنصر اس سحر کا احاطہ نہیں کر سکتا جو مودی نے بھارت کی نوجوانوں کی بہت بڑی اکثریت پر مشتمل آبادی پر کیا ہے۔لائینل ٹریلنگ (Lionel Trilling) نے ایک دفعہ کہا تھا کہ "وقتاً فوقتاً یہ ممکن ہے کہ ہم دیکھیں کہ اخلاقی زندگی کا سلسلہ اپنی تعمیر نو کررہا ہے"۔ مودی نے یہ سلسلہ ایک عظیم تغیّرکیساتھ ٹیکنالوجی کی مدد سے شروع کیا ہے، جس میں بھارتی عوام خود کو اور اپنی دنیا کو دیکھتے ہیں، جہاں ان میں یہ پیغام سرایت کردیا گیا ہے کہ عوامی معاملات میں قدیم شہری اشرافیہ قابل نفرت کردار کی حامل رہی ہے اور جس کے خلاف فساد کرنا مقبول کام ہے۔
ذات پات اور طبقات میں منقسم ، اور بالی ووڈ اور سیاست میں موروثیت کی حامل، بھارتی سوسائٹی مکروہانہ عدم مساوات کا شکار ہے۔ اس کا آئین اور سیاسی نعرے بازی اس کے دعویدار ہیں کہ تمام بھارتی تعلیم و صحت کے مساوی حقوق کے حامل ہیں، لیکن عام بھارتیوں کا روزہ مرہ کا تجربہ بتاتا ہے کہ ان اصولوں کی پامالی ایک معمول ہے۔ بھارتیوں کی عظیم اکثریت اس بڑی خلیج کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں جہاں ایک جانب چمکدار جمہوریت کے آئیڈیل ہیں اور دوسری جانب بدبودار عدم جمہوریت ہے، جس سے ان کے اندر مجروحیت، کمزوری، کمتری، درجات میں کمی، عدم کفایت اور نفرت کے احساسات جمع ہوگئے ہیں۔ اور یہ شکست اور ذلت کا نتیجہ ہیں ان لوگوں کے ہاتھوں جو اعلی مقام کے حامل ہیں ایک ایسے نظام میں جو غیر متغّیر ہے۔ اسّی کی دہائی میں شروع ہونے والے اس تناؤ کا میں بذات خود گواہ ہوں اور اس کا تجربہ رکھتا ہوں، جب میں ایک صوبائی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا جہاں ترقی کے امکانات ناپید تھے، جسے کئی اوریونیورسٹیوں کیساتھ اس ناممکن ہدف کا سامنا تھا کہ نہ صرف وہاں اکیڈمک معیار اونچا ہو بلکہ اس تصور کیساتھ جس کا حامل ، خود اعتمادی سے بھرپور یہ انگریزی بولنا والا شہر تھا۔ہماری مدافعت کا ایک عام موضوع ، جو حسد و نفرت کی آمیزش سے بنا تھا ، راجیو گاندھی تھا ، جو حزب اختلاف کے لیڈر راہول گاندھی کے والد تھے، اور جنہیں مودی نے اپنی انتخابی مہم میں بڑے غلیظ انداز میں لیکن بڑی چالاکی سے ہدفِ مذمت بنایا۔ ایک ایئر لائن پائلٹ جو ملک کا وزیر اعظم بن گیا صرف اس وجہ سے کہ اسکی ماں اور نانا اس عہدے پر فائز رہے تھے، اور جس نے ایک سویڈش آرمز سپلائر سے مبینہ طور پر اپنے سوئس بینک اکاؤنٹس میں کک بیکس وصول کیں۔ راجیو گاندھی کی شخصیت مکمل طور پر اس نمائشی سوشلسٹ کی تھی جو اس کا دعویدار ہے کہ وہ بعد آزادی بھارت کو مغرب کا ہم عصر بنا چاہتا ہے لیکن حقیقت میں جو صرف اپنی ذاتی منفعت کیلئے کام کررہا ہے۔" (جاری)

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...