اٹھارویں ترمیم …امکانات اور مضمرات!

کسی بھی ملک کا آئین مقدس ہوتا ہے۔ اس سے بلاوجہ چھیڑ چھاڑ یا خلاف ورزی ایک سنگین جُرم متصور ہوتا ہے۔ برصغیر میں پاکستان واحد ملک ہے جس میں آزادی سے لیکر اب تک تین آئین بن چکے ہیں۔ یحییٰ خان نے تو چوتھا بھی بنا ڈالا تھا۔ وہ تو بھلا ہو جنرل گل حسن اور ائیر مارشل رحیم کا جنہوں نے اسے ٹی ۔ وی پر ’’آن ائیر‘‘ ہونے سے پہلے روک دیا۔ مجلسِ قانون ساز نے آئین بنانے میں بلاوجہ تاخیر کی اور اس طرح مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے۔ پھر نوکر شاہی کے گورنر جنرل غلام محمد اور اسکندر مرزا ممبران کو تاش کے پتوں کی طرح پھینٹتے رہے۔ بعداز خرابیِ بسیار چودھری محمد علی نے 1956ء میں آئین بنایا جس کو ایوب خان نے منسوخ کر دیا۔ ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں والا آئین دیا جس میں لائلپور کے گھنٹہ گھر کی طرح چاروں اور اس کا عکس نظر آتا تھا۔ حیران کُن بات یہ ہے کہ اس نے اپنے بنائے ہوئے آئین کی بھی خلاف ورزی کی اور مارشل لاء لگا کر اقتدار یحییٰ خان کو سونپ دیا۔ جب ملک دولخت ہوا تو اس غرق مئے ناب نے اپنا آئین نافذ کرنے کی کوشش کی۔یہ ایک معجزے سے کم بات نہیں تھی کہ بھٹو اتفاقِ رائے سے 73ء کا آئین بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کی بنیادی وجوہ دو تھیں۔ اتنی بڑی شکست کے بعد سارے ملک میں صفِ ماتم بچھی ہوئی تھی اور کوئی بھی پارٹی نیا قضیہ کھڑا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ سیاست دان اس شاطر شخص کا ذہن نہ پڑھ سکے۔ آئین میں ہر نکتہِ نظرکو اکاموڈیٹ کیا گیا تھا۔ جب آئین بن گیا تو دو تہائی اکثریت کے بل بُوتے پر بھٹو نے چھ مطلوبہ ترامیم کروا لیں۔
امریکہ نے اڑھائی سو برس کے عرصے میں کل 22 ترامیم کی ہیں۔ آخری ترمیم میں صدرکے عہدے کو دو ’’ٹرم‘‘ تک محدود کر دیا گیا ہے چونکہ جارج واشنگٹن نے تیسری مرتبہ الیکشن لڑنے سے انکار کر دیا تھا اس لیے وہاں ایک CONVENTION (رسم) پڑ گئی کہ کوئی صدر تیسری مرتبہ الیکشن نہیں لڑے گا۔ صدر روز ویلٹ نے جب تیسری مرتبہ الیکشن لڑنے کا عندیہ دیا تو اس کی توجہ اس روایت کی طرف مبذول کرائی گئی۔ اس پر وہ گرجا (DO YOU WANT TO CHANGE HORSES IN THE MIDSTREAM?) (کیا تم لوگ بیچ منجھدار کے گھوڑے تبدیل کرنا چاہتے ہو؟ اس کا اشارہ دوسری جنگِ عظیم کی طرف تھا جو ہنوز جاری تھی۔ وہ تیسری بلکہ چوتھی دفعہ بھی صدر منتخب ہو گیا۔ آخری ٹرم میں زندگی نے وفا نہ کی۔ اس کی موت کے بعد نائب صدر ٹرومین صدر بن گیا۔ یہ وہی ہستی تھی جنہوںنے جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرانے کا حکم دیا تھا۔ اس کے بعد بائیسویں ترمیم ناگزیر ہو گئی تھی۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ قومیں آئین میں ترمیم ملکی مفاد میں کرتی ہیں۔ کوئی شخص اپنے ذاتی ایجنڈا کو بڑھانے کے لئے اس کا مرتکب نہیں ہوتا۔ وطن عزیز میں ہرقدم ذاتی مفاد کی خاطر اُٹھایا جاتا ہے۔ یہاں کے قانون بھی مصلحتوں سے ماورا نہیں ہوتے۔ جب 1990-91ء میں میاں نواز شریف کی پارٹی کو دوتہائی اکثریت میسر تھی تو ان کے ایک حواری ’’میاں فضلی‘‘ نے انہیں مشورہ دیاکہ وہ آئین میں ترمیم کر کے امیر المومنین بن جائیں۔ جب فضلی نے امیر المومنین کے اختیارات گنوائے تو میاں صاحب کی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے پھیل گئیں…کس طرح حضرت عمرؓ نے سپہ سالار خالد بن ولید کو یک بینی و دوگوش کمان سے فارغ کر دیا تھا۔ کیسے اُس قاضی کی سرزنش کی تھی جو ان کی آمد پر تعظیماً کھڑا ہو گیا تھا…ONCE A CALIF ALWAYS A CALIF الیکشن کی جھنجھٹ سے آزاد، ووٹروں کی منت سماجت سے مُبرا۔ "LIFE LONG IN CUMBENCY" میاں فضلی اپنی اردو تقریر میں انگریزی کا تڑکا لگانے کے ماہر تھے۔ وہ ترمیم میاں فضلی نے ہمیں بھی دکھائی تھی ، کیونکہ اُن دنوں ہمارا شمار بھی ان کے چیلے چانٹوں میں ہوتا تھا۔ ہم نے کچھ تحفظات کا اظہار کیا تو وہ ہمیں اورسگار کی راکھ کو ایک ساتھ جھاڑتے ہوئے بولے۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن کی تمہاری نوکری ہے۔ قانون کی کھٹنائوں میں پہلا قدم رکھا ہے۔ اتنی تمہاری عمر نہیں جتنا میرا تجربہ ہے۔ کیا مجھے NICE TIES OF LAW سکھلائو گے! ہم نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔ ان دنوں ان کی مال روڈ والی کوٹھی ان لوگوں سے بھری رہتی تھی جو آجکل بہت بڑے مناصب پر فائز ہیں۔ قصہ کوتاہ ترمیم جب ممتاز قانون دان خالد انور کو دکھائی گئی تو وہ پھٹ پڑے۔ بولے۔ میاں صاحب آپ کو کس نے یہ مشورہ دیا ہے۔ اس سے ملک کے قانون کی بنیادیں ہل جائیں گی۔ اتفاق سے مشیر پاس ہی بیٹھا ہوا تھا اس پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔
آئین اور قانون میں ترامیم ہر شخص نے اپنی ضرورت کے مطابق کیں۔ ضیاء الحق 62/63 لے آیا۔ ممبر اسمبلی کے لئے راست گو و راست باز (صادق وامین) ہونا ضروری ہے۔ مقصد محض 'WITCH HUNTING ' تھا۔ وہ انگریزی زبان کا محاورہ ہے۔
(GIVE THE DOG A BAD NAME AND HANG HIM.)
جس کے گلے میں حسب منشا چاہا ، رسافٹ کر دیا جس معاشرے میں لوگ عادتاً جھوٹ بولتے ہوں ، وہاں خطاکار کا تعین آسان نہیں ہوتا۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن