مجرمانہ لاپرواہی کے چند واقعات دیکھئے۔ پے درپے حادثات کو دیکھتے ہوئے 2014 میں 320 طیارہ پی آئی اے کے بیڑے میں شامل کیاگیا۔ کیپٹن اکرام اللہ کپتان تھے۔ پیشہ وارانہ بے احتیاطی کی ایک مثال یوں بیان ہوتی ہے کہ کیپٹن اکرام اللہ صاحب طیارے کی پرواز کے دوران موسم سے متعلق آگاہ کرنے والا راڈار ’آن‘ کرنا ہی بھول گئے۔نتیجہ یہ نکلا کہ جہاز اس خطرناک موسمی لپیٹ میں آگیا جو طیارے کے حادثے کا موجب بن جاتا ہے۔ یہ جہاز خوش قسمتی سے کسی بڑے حادثے سے تو بچ گیا لیکن اس کے نتیجے میں جہاز کو شدید نقصان پہنچا۔ جب شور مچا تو حامیان میدان میں نکل آئے، پالپا ’اِن ایکشن‘ ہوئی اور کیپٹن اکرام اللہ پر فرد جرم بھی عائد نہ ہوسکی۔
ایسے حادثات تو کسی شمار میں ہی نہیں جس میں جہاز اس علاقے میں جااترا جو جہازوں کی ٹیکسی یا اڑان بھرنے سے قبل کیلئے الگ راستہ ہوتا ہے اور جہاں جہاز قطار بنائے اپنی باری کے منتظر ہوتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خدانخواستہ ایک پائلٹ کی اس سنگین غلطی کے نتیجے میں اور کتنے جہاز اور زندگیاں خمیازہ بھگت سکتی ہیں، اس کا بخوبی اندزہ لگایاجاسکتا ہے۔
پی آئی اے کے ایک ہواباز کیپٹن ایازکے بارے میں بتایاجاتا ہے کہ 7374 پرواز کو رن وے کے بجائے غلط ٹیکسی وے پر لینڈ کردیا۔ ایسے حادثات ممبئی، پیرس اور جدہ میں ہوچکے ہیں۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ایسے سنگین حادثات پر جس شخص کا ہوابازی کا لائسنس منسوخ ہونا چاہئے تھا اسے ڈائریکٹر فلائٹ آپریشنز بنادیاگیا۔ غلط جگہ اور مقام پر جہاز اتارنے کی حماقت سے سینکڑوں مسافروں کی جان داو پر لگانے والے کو تمام جہازوں اور تمام ہی مسافروں کی جان سے کھیلنے کا ’’لائسنس ٹو کِل‘‘تھما دیاگیا۔ ایسی ہی غلطیوں کی بناء پر دو اے ٹی آر جہاز ایک حویلیاں اور دوسرا پنجگور میں گر کر تباہ ہوا۔ گزشتہ سال برطانیہ میں دو بڑی فضائی غلطیاں رپورٹ ہوئیں۔ ائیر ٹریفک کنٹرول کی اجازت کے بغیر ہی ’’پْش بیک‘‘ لے لیاگیا۔ یہ اجازت اس لئے ضروری ہوتی ہے کہ پرواز سے قبل جس راستے سے آپ جارہے ہیں، مبادا دوسری سمت سے کوئی اورجہاز آرہا ہو اور حادثہ ہو جائے۔ یہ طیارے کے کپتان کی تربیت اور نااہلی کا کھلم کھلا ثبوت تھا۔ مانچسٹر اور بیجنگ میں بھی کپتان اور فرسٹ افسر دونوں کے سوجانے کی رپورٹ کی گئی۔ 320 میں کراچی میں بھی ایسا ہی واقعہ بیان کیاجاتا ہے۔
اسی طرح کا ایک واقعہ فروری 2018 کا بتایاجاتا ہے جب کیپٹن اکرام اللہ کو کلئیرنس ملی کہ وہ رن وے 215 لیفٹ پر اترجائیں لیکن وہ 215 رائٹ پر لینڈ کرگئے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ نے داہنے کا اشارہ دیا اور بائیں مڑگئے۔ اسکی فنی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ 777 جہاز کیلئے وہ رن وے ٹھیک نہیں کیونکہ اسکی لمبائی کم ہے۔ زورزبردستی کرکے جہاز کو بریکیں لگا کر روک تو لیاگیا لیکن ایسا کرتے ہوئے مسافروں کی ہڈی پسلی ایک کردی گئی۔ انہی واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے پی آئی اے کے سینئر پائلٹ اعجاز ہارون کراچی میں طیارہ حادثے کو ’’ہاٹ اینڈہائی‘‘ قرار دے چکے ہیں۔
خدشہ ظاہر کیاجارہا ہے کہ غلطیوں اور غیرپیشہ وارانہ انداز کا یہی سلسلہ جاری رہا اور کوتاہیاں ٹھیک کرنے کے بجائے سیاست بازی ہوتی رہی تو خدانخواستہ 777 کا حادثہ بھی ہوسکتا ہے اس لئے اس پورے نظام کو ’’اوورہال‘‘ کرنے کی ضرورت ہے۔ سفارش، اقرباء پروری اور دبائو پر ایسے لوگوں کو ہوا بازی کا لائسنس ملے گا جو اس کے اہل نہیں تو حادثات کی رفتار یہی رہے گی۔
ایک تکنیکی اور فنی پہلو اور بھی سامنے آیا کہ مسافر طیاروں کو لڑاکا طیاروں کے انداز میں اڑایاجارہا ہے جس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ایک فائیٹر پائلٹ اور مسافر طیارے کے ہواباز میں فرق ہوتا ہے۔ پرواز کی بلندی، اسے قابو میں رکھنے، کم بلندی پر طیارہ اڑانے اور اسے زمین پر اتارنے سمیت دیگر مہارتوں میں خاصا فرق ہے۔ ہوا کے دبائو کے عام مسافروں کے جسم اورصحت پر اثرات کو مدنظررکھا جاتا ہے۔
یہ مطالبہ کیاجارہا ہے کہ اے ٹی آر 320 کی تفتیش کھولیں۔ جب اس جہاز کو پرواز کی اجازت ہی نہیں تھی تو پھر مسافروں کی زندگیوں کے ساتھ کیوں کھیلاگیا؟ متعلقہ جہاز بنانے والی کمپنی نے بھی منع کیاتھا، یہ ہدایت کیوں نہ سنی گئی؟ ناقص فاضل پرزہ جات کا استعمال بھی حادثات کاباعث بن رہا ہے۔ پی آئی اے میں تقرریاں کن بنیادوں پر ہورہی ہیں؟ اس کا کچا چٹھہ قوم کے سامنے لایاجائے۔ہوائی اڈوں کی تعمیر اور وہاں مسافروں کی سہولیات کو مدنظر نہ رکھنے کا بھی سوال سامنے آیا ہے۔ ہوائی اڈوں کے معاملے میں بھی مسافروں کی سہولت کو مدنظر نہیں رکھاجاتا۔
طیارے کے المناک حادثے نے ہمارے ریاستی اداروں کی ہنگامی حالات میں بروئے کار آنے اور حادثات سے نمٹنے کی صلاحیت کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔ مہذب دنیا میں پہلے سے طے شدہ طریقۂ کار کے مطابق ہر ادارہ اور فرد اپنے فرائض انجام دینے لگتا ہے۔ اس سانحے کے ایک ہفتے بعد بھی چاروں اور افراتفری کا عالم تھا کو ئی منظم اور مربوط نظام وضع نہیں کیا جاسکا تھا۔ لے دے صرف اور صرف فوج ہی رہ گئی ہے جو آزمائش کی گھڑی ڈھارس بندھاتی ہے۔اس بار بھی جائے وقوعہ پر سب سے پہلے کور کمانڈر کراچی ہی پہنچے تھے۔ سرکاری حکام نے از خود لواحقین سے رابطہ نہیں کیا، کوئی مدد نہیں کی، کوئی ہیلپ ڈیسک نہیں بنایا، کوئی نظام نہیں بنایا۔ لواحقین بے یار و مددگار اپنے پیاروں کو ڈھونڈتے پھرتے رہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ پی آئی اے نے بھی کوئی پراسس،کوئی سسٹم نہیں بنایاتھا۔ اس طرح کے واقعات میں مصائب کے لمحات کو کس طرح گذارا جائے؟ لواحقین ایک سے دوسرے دفتر کبھی ایک ہسپتال کبھی دوسرے ہسپتال خجل و خوار ہوتے رہے۔کسی ادارے نے مدد کیا رہنمائی تک نہیں کی اس میں پولیس سمیت بیوروکریسی کے تمام ادارے شامل ہیں۔ عالمی سطح پر اتنا بڑاسانحہ پیش آتا تو لواحقین کو گھر پر رکھا جاتا، ریاست ماں بن کر آجاتی ہے لیکن یہاں لوگ ہی دردر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اوراس پر ظلم یہ کہ غلط معلومات دی جارہی ہیں۔ جھوٹ ،جھوٹ پر جھوٹ بولا جارہا ہے۔ ایک دفعہ نہیں باربار بولا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے سمجھ نہیں آرہاکہ ہم کہاں جائیں کوئی رابطہ کار نہیں تھا کوئی ذمہ دار نہیں تھا۔ کسی کو پتا نہیں جانا کہاں ہے، کرنا کیا ہے؟ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ جس جگہ ،جس دفتر گئے ہیں جہاں گئے ہیں پیار سے بات نہیں ہوئی، بدتمیزی کی گئی۔ لواحقین کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے جو در در کی ٹھوکریں کھائی ہیں۔لواحقین کہتے ہیں کہ ہم جس جگہ ،جس دفتر گئے ہیں جہاں گئے ہیں ہم سے پیار سے بات نہیں ہوئی۔ بدتمیزی سے بات ہوئی ہے۔ صدر مملکت عارف علوی خودٹوٹے دل ہوئے سے اپنے پیاروں کو ڈھونڈتے پھررہے تھے وہ لوگوں کو دلاسہ دے رہے تھے۔خدا کے لئے اس طرح کی آفات اور حادثات میں خودکار نظام وضع کریں۔ اسی لئے اس حادثے کے بعد پروفیسر حافظ سعید اور جماعتہ دعوہ کے جانثار کارکن بہت یاد آئے جو مشکل کی گھڑیوں میں آفات میں سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔ (ختم شد)