تدبر

مکرمی! قرآن حکیم ہمیں تدبر کی دعوت دیتا ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام لافانی ہے اس لئے تدبر ایک ایسی صفت ہوئی جو تاقیامت ہمیں قرآن سے انسانیت کی فلاح و بہبود کی نئی نئی راہیں تلاش کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔ اسلاف کی تعلیمات سے مستفید ہونے میں کوئی ہرج نہیں لیکن چونکہ ہر آنے والی نسل پچھلی نسل سے زیادہ باشعور اور باعلم ہوتی ہے اس لئے ہم پر لازم ہے کہ ہم قرآن میں تدبر و تفکر کرکے علم و حکمت کی نئی منازل طے کریں۔دنیا کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو واضح ہوگا کہ ہر زمانے کے انسان نے اللہ تعالیٰ کی عنایت کردہ جسمانی اور دماغی اہلیتوں کا استعمال کرکے دنیا میں ترقی کے نئے نئے دروا کئے، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم رہی، جبکہ اکثریت نے محض تقلید کا سہارا لیا۔ اس اندھی تقلید نے انسان سے قوت عمل کو چھین کر اسے ذہنی غلامی کی طرف دھکیل دیا۔اس سلسلے میں قرآن ہماری کئی مقامات پر رہنمائی کرتا ہے۔ سورۃ ’’ص‘‘ کی آیت 29 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ یہ نہایت مبارک کتاب ہے جو ہم نے (اے نبیؐ) تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات پر تدبر کریں اور صاحب عقل و فکر اس سے سبق لیں۔‘‘ سورۃ محمدؐ کی آیت 22 میں اللہ تعالیٰ نے تنبیہ کے انداز میں فرمایا کہ ’’کیا انہوں نے قرآن پر تدبر نہیں کیا، یا ان کے دلوں پر قفل چڑھے ہوئے ہیں؟‘‘ یعنی قرآن پر تدبر نہ کرنے سے عقل و فراست کی راہیں بند ہوجاتی ہیں اور اس طرح کائنات کی تسخیر دشوار تر ہوجاتی ہے۔ مزید سورۃ ’’جاثیہ‘‘ کی آیت 13 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے زمین و آسمان کی ساری چیزوں کو انسانوں کیلئے تسخیر کردیا ہے اور ان میں بڑی نشانیاں ہیں ان کیلئے جو غوروفکر کرتے ہیں (یعنی تدبر و غوروخوض کا حق ادا کرتے ہیں)اگر ہم مسلمانوں کی موجودہ نسل کی طرف دیکھیں تو یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ تدبر و تفکر کی کمی کی وجہ سے عالم اسلام ترقی یافتہ قوموں سے بہت اچھا ہے۔ قرآن کی تدبر کی دعوت پر عمل کرکے ہم علم و حکمت کے میدان میں دوبارہ نمایاں کارنامے سرانجام دے سکتے ہیں۔مختصراً غوروفکر اور علمی تحقیق و ریسرچ کو اپنا کر ہم اب بھی ضائع شدہ وقت کی تلافی کرسکتے ہیں اور ہماری نئی نسل میں بھی قوت عمل، جدوجہد کی صفات پختہ و محکم ہوسکتی ہیں۔اختتام علامہ اقبال کے ان اشعار پر کرتا ہوں جن میں وہ مسلم نوجوانوں سے ایک سوال کرتے ہیں۔ اس کا جواب دینا بہت اہم ہے۔
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گرداں تھے، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا؟
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہونہیں سکتی
کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت، وہ سیارا
(محمد اسلم چودھری، ابدالین سوسائٹی ، جوہر ٹائون لاہور)

ای پیپر دی نیشن