سانحات : تطہیر ناگزیرکیوں؟

ستمگرکرونا سکڑنے کے بجائے پھیلتاجا رہا ہے۔ پاکستان میں انسانی زندگی کی بقا کے لیے کرونا کی جاری تباہ کاریوں کے باوجود لاک ڈائون نرم کیا گیا تو لوگ بازاروں اور مارکیٹوں میں ایسے نکل آئے جیسے کرونا کا خاتمہ ہو گیااور وہ اس پر جشن منا رہے ہیںعید پر جو اودھم مچاوہ ہمارے انٹے لیکچوئل اور حفظ ماتقدم کی تدابیر پر عمل کرنے کی "عمدہ مثالیں" ہیں ۔ عید کی خوشیوں کو غارت کرنے کے لیے کرونا ہی کچھ کم نہ تھا کہ لاہور سے کراچی جانے والا پی آئی اے کا جہاز گر گیا ۔ یہ انتہائی المناک اور خوفناک حادثہ ہے،ابھی تک ساری ڈیڈ باڈیز بھی نہیں مل سکیں۔ اس المناک حادثے کا ذمہ دار کون ہو سکتا ہے؟ اس حوالے سے کئی قیاس آرائیاں اور چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ کہا جارہا ہے جہاز کی صحیح مینٹینس نہیں کی گئی تھی یا پائلٹ کی غلطی تھی وغیرہ وغیرہ ۔
پی آئی اے کے سی ای او نے ایسی افواہوں کی سختی سے تردید کی ہے۔ بلاشبہ کسی جہاز کے مطلوبہ تیاری کے بغیر اڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور کوئی بھی شخص جان بوجھ کر ایسا فالٹ بھی نہیں چھوڑ سکتا جس سے انسانی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں۔ مگر بات مہارت اور اہلیت کی ہے۔ کوئی بھی انجینئر یا ٹیکینشن اپنی اہلیت کے مطابق ہی کام کرتاہے۔ ہوائی سفر سے متعلق پائلٹ کی غلطی کی گنجائش ہوتی ہے نہ ہی انجینئرنگ کے شعبہ میں غفلت ا ور Incompitancy کی گنجائش ہوتی ہے۔کل کے حادثے کو ایک طرف رکھ دیں۔ اس سے قبل بھی کئی المناک حادثات ہو چکے ہیں۔ ان میں کہیں جہاز پرندے سے ٹکرایا ہوگا ، کہیں موسم کا عمل دخل ہوگا کہیں پائلٹ سے غلطی ہوئی ہو گی اور کہیں ٹیکنیکل فالٹ سے حادثہ ہوا ہوگا۔ ٹیکنیکل فالٹ سے ایک بھی حادثہ کیوں ہو؟ ایمریٹس ایئر لائن کی ایک ہفتے میں 36 سوپروازیں چلتی ہیں۔ اس ایئرلائن کی 42سال کی تاریخ میں ایک بھی جہاز کریش نہیں ہوا جبکہ ہمارے ہاں کتنے ہی حادثات ہوچکے ہیں ان کی روک تھام تو تب ہوتی اگر انکوئری رپورٹس سامنے آتیں اور سفارشات پر عمل بھی ہوتا۔
ایمریٹس ایئر لائن کو پی آئی اے نے استوار کیا۔ پاکستان سے دو جہاز پائلٹ اور عملہ پاکستان سے ادھارا اور مستعار لیا گیا۔ آج وہ ایئرلائن دنیا کی دوسری تیسری بڑی ایئر لائن جبکہ پی آئی اے کسی قطار شمار میں نہیں ہے۔ آج بھی پاکستانی پائلٹ اور عملے کے لوگ وہاں موجود ہیں۔انجینئر اور ٹیکنیشن بھی ہیں مگر ایک فرق ہے۔ وہاں اہلیت اور مہارت پر قطعی کمپرومائز نہیں ہوتا۔ پوری چھان بین اور تحقیق و مطلوبہ ٹیسٹ کے بعد بھرتی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں پائلٹ ،انجینئر ،ٹیکیشن اور دیگر عملہ میرٹ پر بھی آتا ہوگا زیادہ تر سیاسی بنیاد پر بھی بھرتیاں کی گئی ہیں۔وزیر ہوابازی سرور خان نے گزشتہ روز پریس کانفرس میں تحقیقاتی رپورٹ 20جون کو جاری کرنے کا اعلان کیا۔جبکہ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ قبل ازیں بھی حادثات کی انکوائری رپورٹس قوم کے سامنے رکھی جائیں گی۔قوم نہ صرف ماضی کے حادثات کی انکوائری رپورٹس جاری ہونے کا یقین ہے بلکہ ان کی روشنی میں سخت اقدامات کا بھی یقین ہے۔سرور خان نے یہ بھی کہا کہ پی آئی اے میں جعلی ڈگریوں کا بھی تذکرہ رہا ہے۔ تصدیق پر پائلٹ‘ انجینئراور ٹیکنیکل سٹاف بھی جعلی ڈگریوں کا حامل نکلا۔ دانستہ کوئی بھی شخص فالٹ کا سبب نہیں بنتا مگرجب مطلوبہ مہارت ہی نہ ہو تو پھر حادثات ہی جنم لیں گے۔ پی آئی اے میں ایک بھی میرٹ سے کم بھرتی، حادثات کی وجہ بنتی رہے گی۔ تطہیر کی ضرورت ہے مکمل سکروٹنی کی جائے۔ یہ انسانی زندگیوں کا معاملہ ہے۔ پی آئی اے کو ایک دو ماہ کے لیے بند بھی کرنا پڑے تو حرج نہیں۔ ایک بھی اہلکار سفارشی اور کم اہلیت کا نہ رہنے دیں۔بلا امتیاز احتساب کی ہوا چل پڑی ہے۔شوگر کمشن نے بڑے بڑے شملے والوں کوبے نقاب کردیا ہے ۔وزیراعظم کسی مصلحت اور دباؤمیں نہیں آرہے۔ احتساب کے ایسے ہی جھکڑ ہرادارے میں چلنے چاہئیں۔پی آئی اے سے خصوصی طور پرنااہل لوگوں کو ہر قیمت پر نکالنا ہوگا۔
قارئین وزیراعظم جناب عمران خان صاحب کی نیت پہ شک نہیں کیا جا سکتا مگر ان کی ’’بُکل‘‘ کے اندر چھپے ہوئے چوروں کا بھی احتساب ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کٹہرے میں گھڑے جوابدہ چوروں کا احتساب ضروری ہے۔ ایک سوال جسے اگلے کالم میں زیربحث لایا جائے گا وہ یہ کہ جب پچھلے دس سال میں وزیراعظم صاحب اپنی انتخابی مہم اور کمپین چلا رہے تھے تو انہیں اس بات کا ادراک کیوں نہ ہوا کہ کچھ مفاد پرست ساتھیوں نے ان کے گرد مفادات کا گھیرا ڈال رکھا ہے اور کل کو یہ مفادپرست ٹولہ آج کی انویسٹمنٹ کا بدلہ یا اجر سود کے ساتھ وصول کریگا؟

ای پیپر دی نیشن