کرکٹ بورڈ کے سابق ڈائریکٹر اکیڈمیز مدثر نذرکا کہنا ہے کہ نچلی سطح پر کام کے بغیر ڈومیسٹک سٹرکچرکامیاب نہیں ہو سکتا۔ عمران خان کا وژن ڈومیسٹک کرکٹ میں صرف چھ ٹیمیں بنانا نہیں ہے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب تک نچلی سطح پر کام نہیں ہوگا ڈومیسٹک سٹرکچر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ موڈی پاجی کہتے ہیں کہ عمران خان سے دوستی کا فائدہ اٹھایا ہے نہ کبھی اٹھاؤں گا۔
مدثر نذرکے اس بیان نے پاکستان کرکٹ بورڈ انتظامیہ کی اہلیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔کرکٹ بورڈ نئے آئین کے نفاذ کے بعد آج تک ملک میں کلب اور سٹی کرکٹ کا آغاز کرنے میں ناکام رہا ہے۔ کرکٹ کا آغاز تو دور کی بات بورڈ آج تک انتظامی معاملات کو چلانے کے لئے عبوری کمیٹیوں کا قیام عمل میں نہیں لا سکا۔ کرکٹ بورڈ نے کلبوں کی سکروٹنی کرنی ہے۔ اس اہم ترین مسئلے پر عملی طور پر کوئی کام نہیں ہوا۔ مدثر نذر کے بیان سے محسوس ہوتا ہے کہ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اور ان کی ٹیم کے اہم کھلاڑی وزیراعظم عمران خان کے وژن کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دو سو ستر سے زائد دن گزر چکے ہیں‘ نیا آئین نافذ ہو چکا ہے صوبوں کی چھ ٹیمیں بن چکی ہیں‘ ایک سیزن اس ڈھانچے کے تحت کھیلا جا چکا ہے‘ دوسرے سیزن کے شیڈول کا اعلان ہو چکا ہے لیکن ابھی تک نچلی سطح کی کرکٹ شروع کرنے کے لئے کوئی کام نہیں کیا جا سکا۔ یہ صورتحال تشویشناک ہے کیونکہ مسلسل دوسرے سال بھی نچلی سطح پر کھیل کے مقابلوں کا انعقاد نہ ہونے سے نوجوان کھلاڑیوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
مدثر نذرکا شمار بھی محکمہ جاتی کرکٹ کے مخالفین میں ہوتا ہے وہ عمران خان کے علاقائی کرکٹ کے منصوبے کے حمایتی رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ نچلی سطح پر کرکٹ کے پھیلاؤ اور نو عمر کرکٹرز کے لئے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنے کے بھی حمایتی رہے ہیں۔ آئی۔ سی۔سی کی گلوبل اکیڈمی میں اہم ذمہ دریاں نبھانے کے بعد انہیں شہریار خان کے دور میں نیشنل کرکٹ اکیڈمی کی سربراہی دی گئی۔ اس دوران انہوں نے بنیادی ڈھانچے کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ باصلاحیت کرکٹرزکی بھی خاصی مدد کی۔ مختلف شہروں میں قائم ہائی پرفارمنس سنٹرز سے اگر کرکٹرز کو فائدہ پہنچ رہا ہے تو اس میں مدثر نذر اور ان کی ٹیم کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مدثر نذر نے جاتے ہوئے عمران خان سے دوستی کا فائدہ نہ اٹھانے کی بات کرکے ان لوگوں کو پیغام دیا ہے جو وزیراعظم سے قربت کی وجہ سے کرکٹ بورڈ میں اہم عہدوں پر کام کر رہے ہیں یا ماضی میں کرتے رہے ہیں یا اس دور میں جن لوگوں نے وزیراعظم عمران خان کا نام یا چہرہ استعمال کرکے فائدے حاصل کئے ہیں۔
ٹیسٹ کرکٹر عابد علی نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ مدثر نذر نے ہمیشہ مشکل وقت میں حوصلہ افزائی اور سخت محنت کے جذبے کو بیدار رکھا۔ ان کے ٹویٹ پر کھیلوں کے سینئر صحافی محمد یوسف انجم لکھتے ہیں کہ مدثر نذرکے جانے کے بعد شاید ہی کوئی ان کی طرح نوجوانوں کے سر پر ہاتھ رکھے۔ کرکٹ بورڈ کی موجودہ انتظامیہ کی سب سے بڑی ناکامی محکمہ جاتی اور علاقائی کرکٹ کے فوری خاتمے کے بعد پیدا ہونے والی مشکل صورتحال کا بہتر متبادل تیار نہ کرنا ہے۔ آنکھیں بند کرکے ہر طرح کی کرکٹ کو بند کر دیا گیا ہے اور خود ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر لاکھوں میں تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔ جہاں تک تعلق کارکردگی کا ہے اس کا پول مدثر نذر نے کھول دیا ہے۔ جو لوگ مدثر نذر سے ملتے رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ بورڈ میں رہتے ہوئے بھی وہ کھیل دشمن فیصلوں اور انتظامی خامیوں پر کھلے انداز میں بات کرتے تھے۔ اب وہ جا چکے ہیں۔ انہیں نام نہاد ’’فیئرویل‘‘ دینے والے یہ بتائیں کہ ملکی کرکٹ کے ساتھ ہونیوالے ظلم کا ذمہ دار کون ہے۔ بورڈ کا سرمایہ کرکٹرز کے کھیل سے آتا ہے یہ کلب کرکٹ‘ سٹی کرکٹ اور صوبے کی کرکٹ کے بجائے چند من پسند آفیشلز پر بے دریغ کیوں خرچ ہو رہا ہے۔ اس پیسے کا حساب کون دے گا مدثر نذر کا یہ کہنا کہ وہ ڈیویلپمنٹ کا کام جیسے کرنا چاہتے تھے ویسے نہیں کر سکے۔ یہ بھی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ وہ کون سی طاقتیں ہیں جو کھلاڑیوں کو سہولیات اور کھیل کے فروغ میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں۔ کھلاڑیوں کے لئے جم کا نیا سامان تو نہیں آتا لیکن آفیشلز کو بھاری تنخواہوں پر رکھ لیا جاتا ہے۔ ڈیویلپمنٹ کے کاموں کو روک دیا جاتا ہے لیکن جہاں شخصیات کا فائدہ ہوتا ہے۔ وہاں خرچے جاری رہتے ہیں۔