عہدِ رسالت میں صحابہ کرام کا جذبۂ حصولِ علم اس قدر تھا کہ لسانِ نبوت سے جو لفظ بھی ادا ہوتاتو صحابۂ کرام اسے سینے میں محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے لکھ کر بھی محفوظ کرلیا کرتے تھے۔ اس دور میں بھی قوت حافظہ میں عربوں کا کوئی ثانی نہیں تھالیکن صحابہ ٔ کرام ارشاداتِ نبوی کو لکھنے پر بھی بہت زور دیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ قرآن کی تفسیرمیں جو لفظ بھی ادا کرتے صحابہ کرام اسے لکھنے میں مسابقت کرتے ۔ اسی طرح آقا کریم ﷺ قرآن کے جس حکم پر باقاعدہ عمل کرکے دکھاتے صحابہ کرام اس واقعہ کو اسی طرح قلمبند کرنے کی کوشش کرتے۔ حصولِ علم کے وارفتگان صحابہ کرام کا یہ عمل اس مقصد کے پیشِ نظر تھا کہ آقا کریم ﷺ کی زبان مبارک سے ادا ہونے والا ہر ہر لفظ بعد میں آنے والوں کے لیے بھی راہِ عمل بن سکے۔ بالفاظ دیگر قرآن مجید کی طرح آقا کریم ﷺ کی سنت بھی محفوظ ہوجائے ۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے جانثار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی فقید المثال تربیت فرماکر ان کے دلوں کو نورِ نبوت سے بھر دیا تھا۔ آپ ﷺ نے قرآن مجید کی تشریح اپنے کرادار اور فعل سے صحابہ کرام کے سامنے بطور نمونہ پیش کی تاکہ رہتی دنیا تک اسی پر عمل پیرا ہوکر امت مسلمہ اپنے لیے جنت کی راہ ہموار کرسکے۔ آپ ﷺ کے فیض یافتگان ہر وقت بارگاہِ نبوت سے علم و حکمت کے موتی تلاش کرنے میں مصروفِ عمل رہتے۔ بعض صحابہ کرام نے تو اپنے شب و روز دربارِ رسالت کے لیے ہی وقف کردیئے تھے جبکہ بعض صحابہ کرام ذاتی و خاندانی مصروفیات کی بناء پر اپنی جگہ کسی اور کو علم کے نور سے منور ہونے کے لیے دربارِ رسالت میں بھیج دیا کرتے تھے، پھر بعد میں ان سے حضورﷺ کی تعلیمات سن کر عمل کرناشروع کردیتے تھے۔ صحابہ کرام کے اسی جذبہ کی دولت آج ہمارے پاس احادیث نبویہ کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ اس ضمن میں تاریخِ اسلام کی چند ایسی عظیم المرتبت اور فقید المثال بزرگ ہستیاں سامنے آتی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کو محض اسی لیے وقف کردیا تھا کہ وہ دن رات دربارِ نبوت سے علم کے موتی سمیٹنے میں مصروف رہیں۔ اسی وجہ سے بعض صحابہ کرام کے پاس کثیر تعداد میں ان کی اپنی تالیفات موجود تھیں جن کو انہوں نے کتابی صورت میں ذاتی لائبریری کی زینت بنایا ہوا تھا۔ اور ان صحابہ کرام کے شاگرد اور متبعین ان کتابوں سے استفادہ کرتے تھے۔ چند مؤلفین صحابہ کرام اور ان کی تالیفات کا ذکر درج ذیل ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ کے جاں نثار صحابہ میں سے ایک عظیم المرتبت اور بارگاہِ نبوی میں پیش پیش رہنے والے صحابی تھے۔ احادیث نبویہ کا بہت بڑا ذخیرہ آپ ہی سے مروی ہے۔ آپ نے اپنی زندگی احادیث نبویہ کو یاد کرنے اور اسے محفوظ کرنے کے لیے وقف کردی تھی۔ آپ دیگر صحابہ کرام کے ساتھ ریاستِ مدینہ کی پہلی درسگاہ یعنی صفہ میں مقیم ہوگئے تھے تاکہ حضور نبی اکرم ﷺ کے روز مرہ کے معاملات کا مشاہدہ کرسکیں اور انہیں دوسروں کے لیے محفوظ کرسکیں۔ آپ احادیث مبارکہ کو سن کر لکھ لیا کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس راستے میں کئی مشکلات اور مصائب برداشت کیے ، یہاں تک کہ کئی کئی دن تک فاقوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ کئی کئی دن تک صرف کھجور اور پانی پر گزاراکرنا پڑتا تھا۔ لیکن ان سب مشقتوں کے باوجود آپ اپنے مشن سے پیچھے نہ ہٹے اور آپ نے انتہائی جانفشانی سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے واقعات و حالات کو کتابی صورت میں یکجا کرنے کی ذمہ داری اٹھائی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بہت بڑی تعداد میںاحادیث و واقعات کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ کرلیا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے ایک شاگرد حسن بن عمرو بن امیہ آپ کے پاس احادیث سننے اور سیکھنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ کے شاگرد نے ایک حدیث کے متعلق بات کی تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر یہ حدیث میں نے سنائی ہے تو میرے پاس لکھی ہوئی محفوظ ہوگی۔ اس کے بعد حضرت ابو ہریرہ اپنے شاگر کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے آئے جہاں احادیث نبویہ پر مشتمل بہت ساری کتابیں موجود تھیں ۔ حضرت ابوہریرہ نے ان کتابوں میں احادیث تلاش کرنی شروع کردی اور وہ حدیث ڈھونڈ نکالی۔ (فتح الباری، ۱؍۱۸۴)گویا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی کتابیں گھر میں ایک جگہ محفوظ کرکے رکھی ہوئی تھیں ، جب کبھی ان کو کسی حدیث میں شبہ ہوتا تو وہ ان کتابوں تلاش کرکے اپنے دل کی تشفی کرلیا کرتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ عنہ اپنے والد کے ایمان لانے سے پہلے ہی مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے۔ آپ بہت بڑے عالم ، متقی اور زاہد تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ علم و فضل اور عبادت و ریاضت میں دیگر صحابہ کرام پر خا ص امتیاز رکھتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ ہمیشہ علم کی تلاش اور جستجو میں لگے رہتے ۔ آپ عربی زبان کے علاوہ عبرانی زبان کے بھی ماہر تھے۔ اپنا اکثر وقت فیضِ نبوت سے استفادہ کرتے ہوئے گزارا کرتے تھے۔ آپ کی ذات میں علم یاد کرنے کے ساتھ ساتھ ا نہیں قلمبند کرنے کا جذبہ بھی تھا۔ زبان ِ رسالت سے جو کچھ سنتے وہ لکھ کر محفوظ کر لیا کرتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ عبد اللہ بن عمر بن العاص وہ شخصیت ہیں جن کے پاس مجھ سے زیادہ احادیث کتابی صورت میں موجود ہیں۔ مشہور تابعی حضرت امام مجاہد بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر بن العاص کی خدمت میں حاضر ہوا اور تکیے کے نیچے سے ایک کتاب نکال کر دیکھنے لگا تو انہوں نے مجھے منع کیا ۔ اس انکار پر میں نے عرض کی کہ آپ تو مجھے اپنی کسی چیز اور کتاب سے منع نہیں فرماتے تھے تو انہوں نے جواب میں کہا کہ یہ وہ صحیفۂ حق ہے جس کو میں نے رسول اللہ ﷺسے سن کر جمع کیا تھا۔ (اسد الغابہ ، ۳؍ ۲۳۳) چنانچہ انہوں نے ایک ضخیم مسودہ حدیث تیار کیا تھا جس کا نام الصحیفہ الصادقہ (سچائی کا صحیفہ)رکھا تھا۔ ایک مرتبہ آپ سے ایک سوال کیا گیا جس کا جواب اس وقت آپ کے ذہن میں مستحضر نہیں تھا تو اس پر آپ نے اپنا صندوق منگواکر ایک کتاب نکالی جس میں سے دیکھ کر آپ نے جواب ارشاد فرمایا۔ (مسند احمد،۲؍۱۷۶) احادیث کے معاملے میں آپ کی تالیف و تدوین کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ آپ رسول اللہ ﷺ کے ملفوظات میں سے مثالوں کو الگ لکھ لیا کرتے تھے۔ گویا کہ ایک روایت کے مطابق آپ نے مختلف اوقات میں رسول اللہ ﷺ سے ایک ہزار مثالیں سن کر محفوظ کی تھیں ۔(اسد الغابہ ، ص۴؍ ۱۱۶) اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب صرف مثالیں ایک ہزار تک محفوظ تھیں تو احادیث کا کتنا بڑا ذخیرہ آپ کے پاس موجود تھا۔ اسی طرح گذشتہ روایت کے مطابق آپ کے پاس ایک صندوق بھی تھا جس میں آپ کتابیں محفوظ کیا کرتے تھے۔ مذکورہ بالا روایات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ ایک بہترین مؤلف بھی تھے اور ان کی اپنی ذاتی لائبریری تھی جس میں کئی کتابیں محفوظ تھیں۔ مفسر قرآن حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ کے چچا کے بیٹے تھے۔ آپ کی والدہ نے ابتداء ہی میں اسلام قبول کرلیا تھا اس لیے آپ کی پرورش دین اسلام کے سائے میں ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہ اکثر اوقات حضور نبی اکرم علیہ السلام کی صحبت میں رہا کرتے تھے۔ قریبی رشتہ داری کی وجہ سے آپ کو دربارِ نبوت سے مستفیض ہونے کا بہترین موقع میسر تھا۔ آپ کے لیے
حضور نبی اکرم ﷺ ……(باقی صفحہ10پر)
نے دعا فرمائی تھی کہ ’’ اے اللہ! دین کی سمجھ عطا فرما اور تاویل کا علم عطا فرما۔ ‘‘ اسی دعا کی برکت سے آپ کا علمی مقام بہت اعلیٰ و ارفع تھا ۔آپ علم سیکھنے اور اسے محفوظ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ سے جو بات سنتے اسے لکھ لیتے ۔ جب کبھی خود بارگاہِ نبوت میں حاضری کا شرف حاصل نہیں کرپاتے تو حضرت ابو رافع کے پاس جاکر ان سے معلوم کرکے رسول اللہ ﷺ کے معمولات قرطاس پر محفوظ کروالیتے۔ آپ کو حدیثیں جمع کرنے کا اتنا شوق تھا کہ صرف ایک حدیث سننے اور اس کی تصدیق کے لیے دور دور تک سفر کرنے کے لیے تیار ہوجاتے(تذکرۃ الحفاظ ، ا؍۵) جمع و تدوین حدیث کے ذوق اور شوق کا نتیجہ یہ تھا کہ آپ اتنی کتابیں تالیف کرچکے تھے جنہیں منتقل کرنے کے لیے اونٹ پر لادا جا تا تھا ۔ آ پ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد یہ کتابیں آپ کے شاگرد اور مشہور تابعی کریب علیہ الرحمہ کے پاس رہیں۔ مشہور مؤرخ موسیٰ ابن عقبہ کا بیان ہے کہ کریب نے ہمارے لیے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی کتب کا اونٹ بھر بوجھ چھوڑا۔(طبقات ابن سعد، ۵؍ ۴۹۳) اسی طرح آپ ایک عظیم مفسر بھی تھے ۔قرآن مجید کی تشریح و تفسیر باقاعدہ اپنے شاگردوں کو املا کروایا کرتے تھے۔ تفسیر طبری کی روایت کے مطابق آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے شاگرد مجاہد بن جبیر کو تفسیرِ قرآن املا کرائی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی ذاتی لائبریری میں قرآن کی تفسیر کے ساتھ ساتھ احادیث کی کئی کتابیں موجود تھیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نے سنِ بلوغ تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنے والد کے ساتھ اسلام قبول کرلیا تھا۔ آپ بہت بڑے فقیہ تھے۔ فتویٰ نویسی میں مہارت رکھتے تھے۔ حضور ﷺ کی بے حد اتباع کر تے تھے۔ یہاں تک کہ دورانِ سفر اگر ایسا مقام آجاتا جہاں کسی زمانے میں آقا کریم ﷺ نے اس جگہ پر قدم رنجہ فرماکر عزت و شرف بخشا ہو تو آپ بھی دورانِ سفر اُن متبرک مقامات پر اتر کر دوگانہ ادا فرمایا کرتے تھے اور نسبتِ رسول کی وجہ سے ان مقامات کی تعظیم فرمایا کرتے تھے۔ آپ کو قرآن کریم سے بہت شغف تھا۔ ایک رات میں پورا قرآن کریم ختم کرلیا کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ علم کو سیکھنے کے بعد اسے قلمبند کرنے پر زور دیا کرتے تھے۔ آپ اپنے شاگردوں کو بھی اسی بات کی تعلیم دیا کرتے تھے کہ علم کو لکھ کر قید کرلو۔ آپ کے پاس اپنی کئی قلمبند کی ہوئی کتابیں موجود تھیں جو احادیث پر مشتمل تھیں۔ آپ ان کتابوں کا مطالعہ بھی کیا کرتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق جب آپ بازار کی جانب کوچ فرماتے تو اس وقت تک گھر سے نہ نکلتے جب تک جب تک اپنی کتابوں پر ایک نظر نہ ڈال لیں۔ (بحوالہ الجامع الاخلاق الراوی وآداب السامع، ص ۱۰۰) گویا کہ آپ ان کتابوں پر نظر ڈال لیا کرتے تھے کہ راستے میں کوئی حدیث پوچھ لے تو اسے بتاسکیں۔ الغرض صحابہ کرام کے ان واقعات سے علم کی اہمیت کے ساتھ ساتھ کتابوں کی اہمیت کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کس قدر علم اور کتاب سے محبت فرمایا کرتے تھے۔ آج ہمارے پاس علم کا جو بھی ذخیرہ احادیث کی صورت میں موجود ہے وہ سب ان صحابہ کرام کامرہونِ منت ہے۔ اس بات میںبھی کوئی شک نہیں ہے کہ جب تک کسی بھی قوم کا دامن علم سے وابستہ رہا وہ عروج و ترقی کی منازل طے کرتی رہی۔ لیکن جب کبھی کسی قوم نے علم کی اہمیت کو نظر انداز کیا تو ذلت و رسوائی اس قوم کا مقدر ٹھہری۔ مسلمانوں کے زوال کی ایک وجہ علم اور کتابوں سے دوری ہے۔