اسلام آباد ( عبداللہ شاد - خبر نگار خصوصی) نیپال بھارت کشیدگی سمیت کئی معاملات پر بھارتی سیاسی اور عسکری قیادت میں اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں، ایک دھڑا بھارتی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت ڈووال، انڈین چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل بپن راوت ، میجر جنرل (ر) دشمبھر دیال، میجر جنرل (ر) اے کے سنہا ، آر ایس ایس ہائی کمان کے رہنما پروفیسر تیواڑی و دیگر نمایاں افراد پر مشتمل ہے۔ دوسرے دھڑے میں بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ، آرمی چیف ماکھنڈ نروانے ،وزیر داخلہ امت شاہ ، وزیر خارجہ جے شنکر، سابق سفارتکار دُوبے و دیگر شامل ہیں راجناتھ سنگھ، انڈین آرمی چیف اور امت شاہ جیسے افراد اس تعیناتی کے سخت خلاف تھے کیونکہ انکے خیال میں بپن راوت کے سی ڈی ایس بننے سے اجیت ڈووال گروپ مزید مضبوط ہو گیا ہے۔ بپن راوت کی تعیناتی سے قبل سی ڈی ایس کی سیٹ ہمیشہ سے خالی تھی اور کبھی اس سیٹ پر کسی فرد کی تعیناتی کیلئے اتفاق نہیں ہو سکا تھا، اب اجیت ڈووال نے مودی سے اپنی قربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے انتہائی قریبی دوست جنرل بپن راوت کو اس عہدے پر تعینات کرا دیا ہے جس سے بھارتی سیاسی حلقوں کے علاوہ فوج میں بھی بے چینی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ جے شنکر، راجناتھ سنگھ ، امت شاہ اس سے قبل بھی اجیت ڈووال کی نریندر مودی سے قربت پر تحفظات کا اظہار کرتے آئے ہیں اور ان کے مطابق اتنے حساس سیکورٹی معاملات کا محض ایک فرد کے ہاتھوں میں کنٹرول، بھارتی سالمیت کیلئے خطرے کا باعث ثابت ہو سکتا ہے۔ پہلے ہی مودی نے دوسرا عہد اقتدار شروع ہوتے ہی اجیت ڈووال کو وزیر مملکت سے ترقی دے کر مکمل وفاقی وزیر کا درجہ دے رکھا ہے۔ ڈووال اور جنرل راوت کا موقف ہے کہ بھارت نیپال کشیدگی کوئی اہمیت نہیں رکھتی اور نیپال جیسے چھوٹے ہمسایے سے تعلقات میں تنائو سے کسی معاملے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ دوسرے دھڑے کا خیال ہے کہ اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو جنوبی ایشیاء میں بھارتی اجارہ داری کو شدید دھچکا پہنچے گا ۔ دریں اثناء صباح نیوز کے مطابق بھارت اور نیپال کے درمیان جاری سرحدی تنازعہ کے درمیان نیپال کے سیاسی نقشے میں ترمیم کے لیے اولی حکومت کی طرف سے پارلیمان میں بل پیش کیے جانے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم کے پی اولی کی قیادت والی کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (سی پی این) حکومت نے گذشتہ روز پارلیمان میں ایک آئینی ترمیمی بل پیش کیا ہے جس میں لیپولیکھ، کالاپانی، لمپیا دھورا علاقوں کو نیپال کا حصہ قرار دیا گیا ہے، جبکہ بھارت ان علاقوں پر اپنا دعوی کرتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر نیپالی پارلیمان میں یہ بل منظور ہوجاتا ہے، جس کا غالب امکان ہے، تو یہ بھارت کی بڑی سفارتی ناکامی ہوگی۔