اسلام آباد(نامہ نگار+خصوصی نامہ نگار) صدر عارف علوی نے اقتصادی تعاون تنظیم (ایکو)کے رکن ممالک کے مابین تعاون اور روابط کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی معاملات میں مفادات کو ترجیح حاصل ہے جبکہ اس وقت دنیا کو انسانیت اور اخلاقی اقدار کی حامل لیڈر شپ کی ضرورت ہے۔ مسلمان ممالک اپنے معاشرت اور معیشت کو مضبوط بناکر عالمی برادری میں اپنا جائز مقام حاصل کرسکتے ہیں۔ وہ اقتصادی تعاون تنظیم کی پارلیمانی اسمبلی کی دوسری جنرل کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کررہے تھے۔ صدر نے مندوبین کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ کانفرنس رکن ممالک کے مابین دوستی اور ملکر کام کرنے کے عزم کو ظاہر کرتی ہے۔ صدر نے 60 سے 70سالوں کے دوران مسلم امہ کو درپیش بڑے مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے کہاکہ مسلمانوں کو دہشتگردی اور انتہاپسندی جیسے چیلنجز سے بہت نقصان پہنچا ہے۔ عالمی طاقتوں کی باہمی لڑائی کے ساتھ ساتھ معاشرتی عدم برداشت سے بھی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں اسلام کی ایسی تصویر پیش کی گئی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں جبکہ فلسطین اور غیر قانونی بھارتی مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جائز تحریکوں پر دہشتگردی کا لیبل لگایا گیا ہے۔ مسلمان دنیا کو دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ اپنے خلاف تعصب کے معاملہ کو بھی اٹھانا چاہیے ، اس مقصد کے لیے دنیا کے ساتھ مکالمے اور بات چیت کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی امور میں مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہاں اخلاقی اقدار کا فقدان نظر آتا ہے۔ اس صورتحال میں مسلمان اپنی دینی تعلیمات کی روشنی میں انسانیت اور اخلاق پر مبنی لیڈر شپ فراہم کرسکتے ہیں۔ ایکو ممالک باہمی تعاون اور روابط کو فروغ دینے کے لیے کردار ادا کریں۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری اس کا اہم ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔ صدرمملکت نے کرونا سے پیدا ہونے والی صورت حال اور اس سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی کامیاب کوششوں کو بھی اجاگر کیا۔ انہوں نے افغانستان کے مسئلہ کے پائیدار حل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ افغانستان کے بعد اس کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوگا۔ یہودیت اور مسیحیت کا قرآن میں بھی ذکر ہے، ہم یہود یا مسیحیوں کے خلاف نہیں بلکہ اس قوم کے خلاف ہیں جو کشمیریوں اور فلسطینیوں اور کہیں بھی انسانیت کے خلاف ظلم و استحصال کرے۔ وزیر خارجہ کے ایک بیان پر لیبل لگایا گیا کہ آپ یہودیوں کے خلاف بات کررہے ہیں، لیکن اس حوالے سے بالکل واضح رہنا چاہیے کہ جب ہم فلسطینیوں پر ظلم کی بات کرتے ہیں تو وہ یہود مخالف بات نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے لیبل لگا کر دنیا کو دکھایا جاتا ہے اور ہولوکاسٹ یاد دلایا جاتا ہے جبکہ ظلم بھی وہ قوم کررہی ہے جو خود اس قسم کے مظالم سے گزری ہے۔ ہم یہود مخالف نہیں ہیں بلکہ صیہونیت مخالف، اسرائیل مخالف اور نسلی عصبیت کے خلاف ہیں جو نسلی تعصب جنوبی افریقہ سے کہیں زیادہ سنگین ہے اور کشمیر میں بھی اب یہ کیفیت پیدا ہوتی جارہی ہے، ہم نسل کشی کے خلاف ہیں۔ جب ناموس رسالت ؐ کے حوالے سے دنیا کو کہا جائے کہ اظہار رائے کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں تکلیف پہنچائی جائے تو دنیا ہماری بات نہیں سنتی کیوں کہ ہم کمزور ہیں۔ دنیا میں دوہرے معیار ہیں، یورپ میں ہولوکاسٹ کے حوالے سے لوگوں کو بات کرنے سے روکا جاتا ہے اور جو اسے چیلنج کرتا ہے اسے سزا دی جاتی ہے کیوں کہ وہ ان کے ضمیر پر بھاری ہے ان کے لیے تکلیف دہ ہے۔ لیکن جب ہم کہتے ہیں کہ نبی ؐ جو ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہیں ان کے خلاف بات کرنے سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے تو دنیا ہماری نہیں سنتی۔ علاوہ ازیں صدر علوی سے قطری وفد نے ملاقات کی۔ صدر نے کہا کہ پاک قطر تعلقات مضبوط بنانے کیلئے پرعزم ہیں۔ قطر کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنی چاہئے۔ ای سی او کی پارلیمانی اسمبلی کی ایگزیکٹو کونسل نے متفقہ طور پر اسلام آباد اعلامیہ کے ڈرافٹ کی منظوری دی جس میں انہوں نے غیرقانونی بھارتی قبضہ والے جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ اس اعلامیہ میں فلسطین کے مظلوم عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ یہ اعلامیہ کانفرنس کے اختتام پر جاری کیا جائے گا۔ افغانستان اور ترکی کی تجویز پر سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو دوسری PAECO جنرل کونسل کا متفقہ طور پر صدر منتخب کر لیا گیا۔ سپیکر اسد قیصر کے اس انتخاب کو ای سی او کے تمام ممبر ممالک کی بھرپور حمایت کی گئی۔ اسد قیصر نے کہا ہے کہ تاریخ گواہ ہے ایشیا دنیا کا 60 فیصد حصہ پیدا کرتا تھا جو اب سکڑتا چلا گیا ہے۔ ہمارے ممالک کا جغرافیہ محل وقوع بہت اہم ہے۔ اس وقت دنیا میں تیزی آرہی ہے۔ غیر ریاستی عناصر کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے۔ ریاستوں کا انفرادی کردار کم ہو رہا ہے۔ عالمی سیاست میں علاقائی تعاون بڑھ رہا ہے۔ ضروری ہے کہ ہم بھی اپنے موثر اجتماعی کردار سے عالمی سیاست میں اپنا مقام پیدا کریں اور علاقائی ترقی پر توجہ دیں۔ ممبر ممالک ملکر خطے کو ترقی کی بلندیوں پر لے جا سکتے ہیں۔