حضور ھادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے شرفِ زوجیت حاصل کرنے والی امہات المومنین مختلف مزاج اورصلاحیتوں کی حامل تھیں، آپ کے دائر ہ تربیت ورفاقت میں شامل ہونے سے انکے مزاج اوررویوں انقلاب آیااوران کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوا، اوروہ سب آنے والی نسلوں کے لیے حسنِ سیرت وکردار کی ایک درخشندہ مثال بن گئیں۔ اتنے بڑے گھرانے میں چند ہی واقعات سامنے آئے جہاں ان کے درمیان اختلاف رائے پیدا ہوا، یا ایک دوسرے سے رشک کا جذبہ سامنے آیا لیکن اللہ رب العزت کی رہنمائی اورحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن تدبر نے ان واقعات میں خیر وفلاح کا راستہ دکھایا ہے اور باہمی محبت، احترام ، رواء داری اورحسن معاشرت کا ایک انتہائی خوبصورت مجموعہ سامنے آگیا جس کی مثال کسی اوراجتماعی گھرانے میں نہیں مل سکتی ۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے والد محتشم حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک مرد شجاع ہیں ، خاندانی مناصب سفارت ومنافرہ اورعلم وتدبر نے ان کی شخصیت میں ایک وقار اورجلال پیدا کردیا تھا، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے مزاج میں بھی ابتداًء جلال کا پہلو قدرے نمایا ں تھا، جو رفتہ رفتہ ٹھہرائو اورصلح جوئی اورجذبہ ء مصالحت میں تبدیل ہوگیا۔صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ہم لوگ ایا م جاہلیت میں خواتین کو ذرہ برابر بھی وقعت نہیں دیا کرتے تھے، اسلام نے ان کو قدرومنزلت عطاکی ، جب قرآن مقدس میںعورتوں کے بارے میں آیتیں نازل ہوئیں تو ہمیںان کے مقام ومرتبے کا ادراک ہوا، ایک دن میری اہلیہ نے مجھے کسی معاملے میں اپنی رائے دی، تو میں نے کہا ، تم (عورتوں )کو مشورہ اوررائے سے کیا واسط؟ وہ کہنے لگیں ابن خطاب! آپ کو ذرا سی بات بھی برداشت نہیں (آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلم کودیکھیں)آپ کی بیٹی توجناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو بے تکلفی سے جواب دے دیتی ہیں ، میں نے یہ سنا تو وہاں سے اٹھ کر فوراً (حضرت) حفصہ کے گھر گیا اوران سے پوچھا بیٹی میںنے سنا ہے کہ تم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلاتکلف جواب دے دیتی ہو، انھوںنے فرمایا : بے شک ہم ایسا کرلیتے ہیں ، میں نے کہا: خبردار میں تمہیں عذاب الٰہی سے ڈراتا ہوں، دیکھو تم اس (مقرب)خاتون (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا )کی ریس نہ کرو، جنہیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (بے پایاں)محبت کی وجہ سے اپنی خوبیوں پر ناز ہے۔(بخاری )