سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے ملازمین کام پر آنے کو تیار نہیں۔ سٹیل ملز انتظامیہ
ظاہری بات ہے جب فارغ بیٹھ کر گھر میں آرام سے ہلے جلے بغیر تنخواہ مل رہی ہو پنشن بھی ملتی ہو تو کس کو ضرورت ہے کہ وہ ہاتھ پائوں ہلائے۔ ان سیاسی بھرتیوں نے ہی سٹیل ملز کو تباہی اور بربادی کی گہری غار میں دھکیلا ہے۔ جہاں سے وہ اب تک نہیں نکل سکی۔ روس اور پاکستان کی دوستی کی یہ شاندار مثال بھٹو دور میں قائم ہوئی۔ ہزاروں افراد کو روزگار ملا۔ مگر کراچی کو جب لسانی بنیاد پر گھن لگنا شروع ہوا تو یہ سٹیل ملز بھی اس کی زد میں آ کر کھوکھلی ہو گئی۔ ایم کیو ایم کراچی کی بلاشرکت غیرے مالک بنی تو سرکاری و نجی محکموں میں اپنے ہزاروں بندے سیاسی بنیادوں پر یعنی دھونس اور دبائو ڈال کر بھرتی کرائے۔ ان افراد میں تعلیم اور قابلیت تو کوئی تھی نہیں سوائے اس کے کہ یہ سب ایم کیو ایم کے کارکن اور وفادار تھے۔ یوں نااہل لوگ سرکاری و غیر سرکاری محکموں میں بھرتی ہوئے۔ اب حکومت ایک مرتبہ پھر سٹیل ملز کو فعال بنانے میں سنجیدہ ہے۔ اسی لیے ملز انتظامیہ ملازمین کو طلب کر رہی ہے۔ مگر اب ایم کیو ایم کی چھتری میسر نہیں اس لیے نااہل غیر تعلیم و تربیت یافتہ سیاسی غنڈے پریشان ہیں کہ وہ جا کر کیا کریں گے انہیں تو آتا جاتا ہی کچھ نہیں۔ وہ تو حاضری لگانے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے تھے۔ بس ہر ماہ آ کر تنخواہ لے جاتے تھے۔ اب تو فارغ رہ رہ کر …؎
ان کے پائوں میں مہندی لگی ہے
آنے جانے کے قابل نہیں ہیں
کے مصداق وہ کریں تو کیا کریں۔ کچھ پکڑے جانے اور تحقیقات کا خوف بھی انہیں روکے ہوئے ہے کہ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔
٭٭٭٭٭
ہائی کورٹ نے تعمیراتی منصوبوں میں درخت کاٹنے سے روک دیا
بہت اچھا حکم ہے یہ مگر اس پر عمل کی ضرورت بھی ہے۔ پہلے بھی ایسے کئی حکم جاری ہو چکے ہیں مگر ان پر عمل درآمد کی کوئی راہ نکل نہ پائی۔ یوں عملاً یہ تمام احکامات ہوا میں اڑا دئیے گئے۔ لاہور باغوں کا شہر تھا جہاں تعمیرات کے نام پر سب سے زیادہ قتل عام انہی باغات کا ہوا ۔ سڑکوں کے کنارے لگے خوبصورت گھنے درخت بھی انہی توسیعی منصوبوں کی زد میں آ کر کاٹ دئیے گئے۔ یوں سر سبز سائے دار شاہراہیں اب دھوپ میں چمکتے پگھلتے تارکول کی وجہ سے سفر کرنے والوں کو جھلسا دیتی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے برے اثرات بھی رونما ہونے لگے ہیں۔ موسم گرما کا دورانیہ بڑھ گیا ہے۔ قدرتی مفت ملنے والی آکسیجن بھی کم ہو رہی ہے۔ باغوں کا شہر سیمنٹ اور کنکریٹ کے قبرستان میں تبدیل ہو گیا۔ بارہا عدالت اور ماہرین ماحولیات نے پنجاب حکومت کو خبردار کیا کہ درختوں اور سبزے کا قتل عام روکے مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ لاہور جو پنجاب کا دارالحکومت ہے جب وہاں حکومت کچھ نہیں کر سکی تو باقی شہروں میں کیا حال ہو گا اس کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ بے شک توسیع اور تعمیر کے منصوبے ضروری ہیں مگر یہ درختوں کو کاٹے اور ماحولیاتی تناسب بگاڑے بغیر بھی مکمل ہو سکتے ہیں۔ کیا تعمیر کے نام پر ضروری ہے کہ قدرتی ماحول کو برباد کیا جائے۔ پنجاب گرم خطہ ہے یہاں درخت اور سبزے کی بدولت موسمی سختی میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ ا س لیے کاٹے گئے درختوں کی جگہ نئے درخت اور سبزے کی جگہ نئے پودے اور گھاس لگانے کے عدالتی حکم پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے۔
٭٭٭٭٭
سیاست نہ کریں انصاف دیں : جہانگیر ترین
اب بات سیاست سے آگے بڑھ چکی ہے۔ ترین جی اب کھل کر سیاست نہیں انصاف کی بات کر رہے ہیں۔ سیاست کا مطلب سب جانتے ہیں کہ باتوں میں لگا کر بہلا پھسلا کر جھوٹے وعدوں پر ٹرخانے کو کہتے ہیں۔ انصاف کا مطلب ہے ایمانداری سے کسی بات کا درست فیصلہ کرنا۔ تحریک انصاف والے بہرحال انصاف کا مطلب وہ لیتے ہوں گے جو ان کے قائد یعنی وزیر اعظم عمران خان لیتے ہیں یا کہتے ہیں۔ اب ترین گروپ میٹھی میٹھی باتوں سے اکتا چکا ہے۔ جبھی تو وہ کہہ رہے ہیں کہ یہی صورتحال رہی تو بجٹ منظور کرانا حکومت کے لیے مشکل ہو سکتا ہے۔ اگر ترین گروپ واقعی بجٹ سیشن کے دوران پارلیمنٹ میں اڑ گیا تو کام خراب ہو سکتا ہے۔ لگتا ہے یہ بات کہنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اب حکومت اس گروپ کو آسان نہ لے۔ یوں اب چاہے سر پھوٹے یا ماتھا۔ ترین گروپ حکومت کے مقابل آ گیا ہے۔ لگتا ہے جہانگیر ترین بھی حکومت کی طویل تھکا دینے والی پلاننگ سے اُکتا گئے ہیں۔ وہ یہ تک کہنے پر آگئے ہیں کہ ’’کچھ باتیں وقت آنے پر بتائوں گا‘‘ سب جانتے ہیں کہ جہانگیر ترین تحریک انصاف کے ’’صدر الصدور‘‘ تھے۔ حکومت بنانے میں ان کی مالی و جسمانی کاوشوں کا بڑا عمل دخل ہے۔ اب اگر وہ یہ سب قصے لے کر بیٹھ گئے تو ہزاروں کہانیاں سامنے آئیں گی۔ فی الحال تو وہ
قصۂ غم میں تیرا نام نہ آنے دیں گے
ہم تیرے پیار پر الزام نہ آنے دیں گے
والے عہد پر قائم ہیں مگر کب تک۔ جب خان صاحب یوٹرن لینے کو حکمت عملی قرار دے سکتے ہیں تو کہیں ترین جی بھی اب یہی حکمت عملی نہ اپنا لیں۔
٭٭٭٭٭٭
کویت نے 10 سال بعد پاکستانیوں کے لیے ویزے کھول دئیے
یہ بڑی خوشی کی بات ہے۔ کیونکہ کویت میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد بسلسلہ روزگار مقیم تھی اوروہ بھاری زرمبادلہ کما کر وطن بھیجتے تھے۔ کویت کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ تعلقات ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام بھی ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں مگر 2011 ء میں سکیورٹی وجوہات کی بنا پر کویت نے پاکستان ، ایران ، فلسطین اور افغانستان کے باشندوں کے لیے ویزے بند کر دئیے تھے۔ پاکستان کی تمام حکومتوں کی طرف سے کویت سے ویزے کھولنے کی درخواستیں ہوئیں۔ ’’مگر یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا‘‘ یہ اعزاز شیخ رشید کے حصے میں آیا جو کویت گئے تھے، وزیراعظم عمران خان کا مراسلہ (خط) امیر کویت کے نام لے کر اور وہاں سے انہیں ویزے کھولنے کی خوشخبری بھی ملی۔ اسے ہم کہہ سکتے ہیں ، بن مانگے موتی مل گئے۔ اب اس خوشخبری کا سہرا معلوم نہیں وزیراعظم کے سر جاتا ہے یا وزیر داخلہ کے۔ ویسے مراسلہ تو وزیر اعظم نے لکھا تھا جو ظاہر ہے لو لیٹر تو نہیں ہو گا۔ اہم معاملات پر ہی ہو گا جن میں ویزوں کی بحالی بھی شامل ہو گی۔ بہرحال اب خوشی کی بات ہے کہ لاکھوں پاکستانیوں کو کویت میں روزگار ملے گا جہاں روز گار کے بے شمار مواقع دستیاب ہیں۔ اس طرح ملکی زرمبادلہ کی حالت بھی بہتر ہو گی اور لاکھوں گھروں میں امید کے چراغ روشن ہوں گے۔ خوشحالی کا دور آئے گا۔
٭٭٭٭٭
بدھ‘ 21؍ شوال 1442ھ‘ 2؍ جون 2021ء
Jun 02, 2021