ان دنوں بہت شور مچا ہوا ہے کہ پاکستان امریکی افواج کو اڈے دینے پر آمادہ ہے۔وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اعلان کیا ہے کہ جب تک عمران خان ملک کے وزیر اعظم ہیں پاکستان کی سر زمین کسی ملک کو استعمال کے لیے نہیں دی جاسکتی ۔ اس سے قوم کو مطمئن ہونا چاہئے کہ ان کی سلامتی اور خودمختاری عمران خان کے ہاتھوں محفوظ رہے گی جبکہ پاکستان کی ماضی کی تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان کی سرزمین بد قسمتی سے بیرونی طاقتوں کی چرا گاہ اور آماجگاہ بنی رہی ہے۔
ایوب خان کے دور میں اچانک سوویت روس نے اعلان کیا کہ اس نے پاکستان کے شہر پشاور کے نزدیک بڈبیر کے ہوائی اڈے سے اڑنے والا ایک امریکی جاسوس طیارہ یو ٹو مار گرایا ہے۔پاکستان اور امریکہ نے فورا اس کی تردید کردی لیکن اگلے روز روسی وزیراعظم خروشیف نے یو ٹو کے پائلٹ کو اپنے ساتھ ٹی وی اسکرینوں پر بٹھایا اور ساری دنیا کو حیرت زدہ کردیا ۔
پاکستان نے سخت خفت محسوس کی اور امریکہ بغلیں جھانکنے لگا ۔خروشیف نے اعلان کیا اس نے پشاور کے گرد سرخ دائرہ لگا دیا ہے۔یہ تھا پہلا انکشاف پاکستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کو استعمال کی اجازت دینے کا۔آج ساری دنیا پاکستان پر دبائو ڈالتی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دے لیکن امریکہ نے ہمیشہ اس اصول کی خلاف ورزی کی اور پاکستان کو ایک باندی کی طرح استعمال کیا۔
نائن الیون کے بعد ایک ٹیلی فون کال پر صدر مشرف کو مجبور کیا گیا کہ وہ وار آن ٹیرر میں پاکستان کا ساتھ دے ورنہ امریکہ اسے اپنا دشمن خیال کرے گا،صدر مشرف اس ایک ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہو گئے اور انہوں نے امریکی حلیف بننے کا یقین دلا دیا اور اس کے نتیجے میں بلوچستان کے ایک ہوائی اڈے شمسی ایئر بیس کو امریکیوں کے حوالے کر دیا جہاں سے ڈرون طیارے اڑ کر افغانیوں کو بھی مارتے تھے اور پاکستان کے قبائلی علاقوں پر بھی حملے کرتے تھے۔شمسی ایئر بیس کو امریکی جنگی طیارے بھی استعمال کرتے تھے۔
یہ فیصلہ پاکستان کے دامن پر ایک دھبہ بن گیا ۔پاکستان کا اقتدار اعلیٰ مسخ ہو کر رہ گیا اور اس کی خود مختاری اور آزادی پر سوالیہ نشان اٹھنے لگے ۔پاکستان ایک طفیلی اور پٹھوملک کا کردار ادا کر رہا تھا۔
پاکستان اس قدر امریکہ کے سامنے جھکتا چلا گیا کہ امریکی سی آئی اے کے سربراہ ویلیم کیسی نے دھمکی دی کہ اگر اوسامہ بن لادن پاکستان میں ہوا تو امریکہ بغیر کسی وارننگ یا اجازت کے اس کے خلاف آپریشن کرے گا۔ اور بالآخر یہی ہوا امریکہ نے ایک شب ہیلی کاپٹر ز سے حملہ کرکے اوسامہ بن لادن کو مار کر اس کی لاش کو کھلے سمندروں میں پھینک دیا ۔
اس واردات نے پاکستانی خود مختاری کو بلڈوز کرکے رکھ دیا ۔وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں یہ ایک شرم ناک ترین لمحہ تھا جب امریکہ کا حلیف ملک پاکستان امریکی حملے کا نشانہ بن گیا اور وہ بھی کسی پیشگی وارننگ کے بغیر ۔یہ ہماری آزادی اور خودمختاری کے خلاف کھلی جارحیت کا مظاہرہ تھا۔
امریکی افواج نے دنیا بھر میں پائوں پسار رکھے ہیں۔ڈیگوگارشیا سے بڈبیر تک اور بڈبیر سے لے کر شمسی ایئر بیس تک اور اب قطر اور دبئی تک اس نے جگہ جگہ اپنے فوجی اڈے قائم کررکھے ہیں ۔
سوویت یونین سے آزاد ہونے والی ریاستوں میں بھی اس کے اڈے موجود ہیں جہاں سے وہ روس اور چین کے خلاف جاسوسی کی کاروائیاں کرتا ہے۔امریکی افواج کسی اصول اور اخلاق کو نہیں مانتیں۔انہوں نے ویتنام کمبوڈیا اور لائوس کو کچلا ۔لیبیا ، عراق، لبنان، شام ،افغانستان اور یمن میں تباہی پھیلائی۔دنیا بھر میں امریکی اور نیٹو افواج دندناتی پھرتی ہیں ۔
انیس سال سے امریکی اور نیٹو افواج افغانستان میں مقیم ہیں وہ افغان عوام کی مزاحمت کوکچلنے میں ناکام رہی ہیں اور اب اکتا کر افغانستان سے نکلنے کے لیے مذاکرات کر رہی ہیں۔مگر جانے سے پہلے وہ ایک بار پھر علاقے میں موجودگی کے لیے بہانے تلاش کر رہی ہیں ۔
بظاہر تو امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان میں فوجی اڈے اس لیے چاہتا ہے کہ وہ افغانستان کے امور کی نگرانی کرسکے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی موجودگی خود پاکستان کے لیے خطرہ ہے۔پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اور امریکہ کھلے عام پاکستان کو ایٹمی اسلحے سے دست بردار ہونے کے لیے دبائو ڈالتا رہا ہے۔
دوسری طرف افغان طالبان نے دھمکی دی ہے کہ اگر پاکستان نے امریکہ کو اڈے دیئے تو اس عمل کو افغان عوام کے ساتھ دشمنی تصور کیا جائے گا ۔
تیسری طرف چین کو بھی خدشہ ہے کہ امریکہ اس پر نظر رکھنے کے لیے پاکستان سے اڈے مانگ رہا ہے ۔چین کے خلاف امریکی عزائم ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔وہ سی پیک کو کسی قیمت پر کامیاب ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا ۔اس مقصد کے لیے امریکی بحری افواج سائوتھ چائنہ سی میں ڈیرے ڈال چکی ہیں۔
پاکستانی عوام کو یقین ہے کہ ماضی میں جو ہوا وہ برا ہوا ،امریکہ کو اڈے دیئے گئے تو غلط دیئے گئے اور یہ ایک گناہ عظیم کے مترادف تھا۔اب اس عمل کو نہیں دہرایا جانا چاہئے ۔
جیسا کہ وزیر اعظم عمران خان کے ترجمان یقین دلا چکے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے پاکستان کسی کا پٹھو نہیں بنے گا اور نہ اپنی سرزمین امریکہ کو دوسرے ملکوں کے خلاف استعمال کے لیے دے سکتا ہے۔
ایوب خان اور مشرف کا دور لد گیا۔ اب پاکستان میں جمہوری حکومت ہے۔فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں اور اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ امریکہ اپنی جارحانہ خواہشات کی تکمیل کر سکے۔الحمد اللہ پاکستان محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
٭…٭…٭