سید شعیب شاہ رم
shoaib.shahram@yahoo.com
ملک میں توانائی کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ دیہی اور شہری علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 12 گھنٹے سے زیادہ ہو گیا ہے۔ ملک میں اس وقت جب گرمی کی شدید لہر ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں سال پاکستان سمیت خطہ میں شدید ہیٹ ویو ہوگی جس سے عمر رسیدہ افراد سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ ایسے میں ایک طرف تو گرمی ہے تو دوسری طرف مہنگی بجلی اور گیس کے باعث بجلی کی پیداوار متاثر ہوگئیں ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق ملک میں اس وقت 7 ہزار میگا واٹ کے قریب بجلی کا شاٹ فال ہے۔ دیکھا جائے تو ہم لوگ بجلی کے استعمال میں بچت کے عادی نہیں اور عالمی سطح پر بڑھتی ایندھن کے قیمتوں میں اضافہ سے بجلی کی پیداواری قیمت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ اگر صرف کراچی کی بات کی جائے تو عوام کو بجلی پر فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 4.82 پیسے فی یونٹ زائد ادا کرنے ہوں گے۔ آئی ایم ایف کی سبسڈی ختم کرنے کی شرط کے بعد ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا جس کے بعد توقع ہے کہ اگست میں بجلی پر فیول سرچارج 10 سے 11 روپے فی یونٹ تک پہنچنے کا امکان ہے جو ایک عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہوچکا ہے۔ ایسے میں ہمیں بحیثیت قوم توانائی کے استعمال میں میاناروی برتنا ہوگی۔ ماہرین کے مطابق آئندہ چند دنوں میں عوام کو بجلی کے استعمال میں 20 فیصد تک کمی اپنانی چاہیے ورنہ مستقبل میں آنے والے بل ان کی پہنچ سے بہت دور ہوں گے۔ ایک طرف تو ہمارا توانائی استعمال کرنے کا اپنا طریقہ کار ہے جسے کم کرنے کی ضرورت ہے، عالمی سطح پر لوگ پہلے ہی توانائی کی بچت پر کام کر رہے ہیں اور دنیا بھر میں توانائی کی غربت کہ اصطلاح پیش کی جارہی ہے جس میں مہنگی توانائی بہت سے لوگوں کی پہنچ سے دور ہو رہی ہے۔ دوسری طرف انتظامی امور ہیں جس میں پالیسی میکرز کی جانب سے توانائی کی بچت اور اس کے مؤثر استعمال پر کوئی واضع پالیسی مرتب نہیں کی گئی۔ حکومت کی جانب سے اداروں کی ضروریات اور تجاویز یکسر نظر انداز کی جارہی ہے جس سے معاملات مزید تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔ حال ہی میں کے الیکٹرک نے حکومت سے 25 ارب کے واجبات کی وصولی کیلئے خط تحریر کیا جس کا کوئی خاطر خواہ جواب موصول نہیں ہوا۔ کے الیکٹرک نے وفاقی حکومت سے ادائیگیوں حوالے سے سندھ صوبائی حکومت سے بھی مدد کی درخواست کی ہے۔ اس ضمن میں کے الیکٹرک نے وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کو مکتوب ارسال کردیا۔ خط کے مطابق کے الیکٹرک کا ٹیرف ڈیفرنشنل کلیم اپنی انتہائی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ اور خدشہ ہے کہ اگر ٹیرف ڈیفرنشل کلیم کی ادائیگی نہ ہوئی تو لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 14 گھنٹے تک پہنچ سکتا ہے۔ شہر میں لوڈ شیڈنگ بڑھنے سے صنعتی اور معاشی سرگرمیاں متاثر ہونگی اور امن و امان کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ خط میں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ ٹیرف ڈیفرنشل کی رقم فوری ادا نہ کی گئی تو پی ایس او اور سوئی سدرن کو ادائیگیاں کرنا مشکل ہوجائے گا۔ تاہم بین الاقوامی سطح پر ایندھن کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے جبکہ حکومت نے بیس ٹیرف میں اضافہ نہیں کیا ہے۔ کے الیکٹرک کا خط میں مؤقف ہے کہ ایندھن مہنگا ہونے کی وجہ سے ٹیرف ڈیفرنشل کلیم تین گنا بڑھ گیا ہے جو 3 روپے فی کلواٹ سے بڑھ کر 12 روپے تک پہنچ گیا ہے۔ دوسری جانب کے الیکٹرک نے سوئی سدرن کو ادائیگی نہ کی تو گیس کی سپلائی منقطع ہوسکتی ہے، جس سے مزید 500 میگاواٹ بجلی کی قلت ہوجائے گی۔ کے الیکٹرک ذرائع کے مطابق کمپنی کو 900 روپے میں دستیاب گیس اب 4800 روپے میں مل رہی ہے، ساتھ ہی عالمی مارکیٹ میں ایندھن کی قیمت میں بھی کئی گناہ اضافہ ہوچکا ہے جس سے بجلی کی پیداواری قیمت آسمان پر پہنچ چکی ہے۔ ملک میں گیس کی قلت کے باعث کمپنی کو قدرتی گیس کی فراہمی بند ہے جس سے 2 پاور اسٹیشن 6ماہ سے تقریباً بند پڑے ہیں، کراچی کے صارفین کو سستی اور طلب کے مطابق گیس فراہم کرنے کیلئے آر ایل این جی کے بجائے مقامی گیس فراہم لازمی ہے کیونکہ قدرتی گیس کم قیمت ہونے کے باعث عوام کی پہنچ میں ہے۔ ذرائع کے مطابق کے الیکٹرک (کے ای) کے کورنگی اور سائٹ کے گیس ٹربائن کو سوئی سدرن گیس (ایس ایس جی سی) سے صرف رات میں کچھ وقت کے لیے گیس ملتی ہے، جس سے زیادہ سے زیادہ 40 میگا واٹ بجلی پیدا ہوسکتی ہے۔ اگر متعلقہ فورمز پر کیئے گئے فیصلوں کے مطابق کے الیکٹرک کو مقامی گیس فراہم کی جائے تو شہر میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کم ہونے کے ساتھ ساتھ بجلی کیبلوں میں بھی صارفین کو سہولت دستیاب ہوگی۔ کے الیکٹرک نے یہی بات وزیر اعلی سندھ اور دیگرحکام کو تحریر کردہ مکتوب میں لکھی ہے۔ کے الیکٹرک کی چیف مارکیٹنگ آفیسر سعدیہ دادا کے مطابق ابتداء میں کے الیکٹرک کو 276 ایم ایم سی ایف ڈی کی گیس فراہمی کی یقین دھانی کرائی گئی تھی۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ گیس کی فراہمی میں کمی ہوتی رہی جس کے بعد کابینہ کی خصوصی کمیٹی برائے توانائی میں سوئی سدرن اور کے الیکٹرک اور سوئی سدرن نے اتفاق کیا تھا کہ کے الیکٹرک کو 130 ایم ایم سی ایف ڈی مقامی اور اس سے زائد جو بھی گیس ہوگی وہ آر ایل این جی کی قیمت پر فراہم کی جائے گی۔ مگرکے الیکٹرک کو گیس کی فراہمی تبدریج کم کرتے ہوئے اب تقریبا صفر کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ جبکہ 100 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کے لئے آر ایل این جی گیس کے ریٹ پر مل رہی ہے۔ مقامی گیس کی فراہمی صفر کی سطح پر ہونے کے باعث بجلی کی پیداوار مہنگی ہوگئی ہے۔ سائٹ اور کورنگی کے گیس ٹربائین پلانٹس پر گزشتہ 6 ماہ سے زائد عرصے سے گیس پریشرانتہائی کم ہے۔ اور یومیہ چند گھنٹے رات کے وقت اسقدر گیس دستیاب ہوتی ہے جس سے 40 فیصد پیداوار کی جاسکے۔ کورنگی پاور پلانٹ کی بھی یہی صورتحال ہے۔ اتوار کے روز پریشر میں بہتری ہوتی ہے تو کچھ پیداوار ہوجاتی ہے۔ کے الیکٹرک کے لیے 276 ایم ایم سی ایف ڈی مختص کی گئی، مگر 5 سال سے یہ گیس اب تک مکمل طور پر نہیں مل سکی۔ 2017 میں یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ گیس کے معاملات حل ہوجائیں گے۔ جس کے بعد 130 ایم ایم سی ایف ڈی قدرتی گیس جبکہ باقی گیس آر ایل این جی کی دینے کا معاملہ طے پایاتھا۔ لیکن اس وقت قدرتی گیس صفر اورآر ایل این جی 100 ایم ایم سی ایف ڈی مل رہی ہے، جب کہ 4700 فی ایم ایم بی ٹی یو آر ایل این جی دی جارہی ہے۔ مقامی گیس 857 سے 1000 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے دی جارہی تھی۔ کے الیکٹرک کی ڈیمانڈ 190 ایم ایم سی ایف ڈی ہے مگر صرف 100 ایم ایم سی ایف ڈی مل رہی۔ جس سے پیداوار متاثر ہورہی ہے۔ اس وقت تمام تر گیس بن قاسم 2 کو دی جارہی ہے۔ ٹی ڈی ایس کی مد میں کے ای کے کل 25 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ ایندھن مہنگا ہونے کا براہ راست اثر صارف پر پڑتا ہے۔ اگر آر ایل این جی کے بجائے قدرتی گیس پر بجلی کی پیداوار کی جائے تو 13 ارب روپے تک کی صارفین کو بلوں میں بچت ہوسکتی ہے۔ مارچ کے مہینے میں فیول ایڈجسمنٹ 5روپے جبکہ آنے والے مہینوں میں یہ رقم 10 سے 12 روپے تک جاسکتی ہے۔ مہنگے ایندھن کی وجہ سے ایندھن کی خریداری متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ بجلی کے بلوں کی ادائیگی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ پانچ گنا مہنگے ایندھن کی خریداری ایک بڑا چیلنج ہے۔ اور اگر کے الیکٹرک ایندھن نہ خرید پائے تو لوڈ شیڈنگ بڑھ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں بحیثیت قوم توانائی کے استعمال میں میانہ روی اختیار کرنا ہوگی تو دوسری جانب حکومت کو بھی عوام کی ضروریات کو ترجیح دیتے ہوئے، اور ملک میں توانائی کے متوقع بحران سے بچنے کیلئے پیشگی اقدامات کرنا ہوں گے۔ بصورت دیگر ملک پھر اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔ جس سے نا صرف عوام متاثر ہوگی بلکہ معاشی اور اقتصادی سرگرمیاں بھی خطرناک حد تک متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ یہی موقع ہے کہ ہم فوری طور پر ہنگامی اقدامات کرتے ہوئے مسائل کی سنگینی کو سمجھیں اور صورتحال کو قابو میں رکھنے کیلئے بروقت اقدامات کریں۔