عزیز علوی
تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وفاقی حکومت سے محروم ہو نے کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان اپنی سیاسی پوزیشن کوموجودہ حکومت کے سامنے ایک بڑی اپوزیشن میں بدلنے کے لئے گو مگو صورتحال سے دوچار نظر آرہے ہیں۔ وہ سیاست کے میدان میں اپنی سولو فلائٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے وفاقی حکومت اور قومی اسمبلی دونوں کا ایک ساتھ خاتمہ چاہتے ہیں۔ عمران خان نے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں اپنی کابینہ کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی کے لئے جن مجموعی مشکلات اور ناکامیوں کا سامنا کیااس وقت وہ ان تجربات کو اپنی سیاسی مہارت کے طور پر وزیراعظم شہباز شریف کی موجودہ حکومت پر تنقید کی صورت میں جاری رکھے ہوئے ہیں عمران خان بنی گالہ میں اپنی رہائشگاہ اور اس میں قائم اپنا پبلک سیکرٹریٹ چھوڑ کر عملاً پشاور میں منتقل ہوگئے ہیں ۔جہاں ان کی جماعت کے سرکردہ رہنماء ہمہ وقت ان کے دائیں بائیں موجود ہیں اسلام آباد میں بھی تحریک انصاف کے سینٹرل سیکرٹریٹ کی بجائے پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز کے پی کے ہائوس ہے ۔چیئرمین عمران خان جن کی جماعت اس وقت کے پی کے، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی حکمران پارٹی ہے ان حکومتوں کے سربراہان بھی اپنے پارٹی لیڈر کی سیاسی سرگرمیوں میں ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں۔ عمران خان حقیقی آزادی مارچ کے بعد مسلسل پشاور میں رہ کر اپنی آئندہ کی سیاسی پلاننگ میں مصروف ہیں وہ اگلا مارچ کرنے کی تیاریاں بھی کر رہے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ ان کا یہ مارچ سابقہ مارچ کے مقابلے میں زیادہ کامیاب ہو لیکن اس معاملے میں کسی بھی قسم کی جلد بازی تحریک انصاف کی سیاسی مقبولیت کیلئے نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اب پی ٹی آئی کی قیادت کوبہتر طور پر چلنا ہے۔
قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے استعفوں پر سپیکر راجہ پرویز اشرف نے مستعفی ارکان کی حتمی رضامندی لینے کے لئے انہیں لیٹر جاری کر دیئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی کے. خط پر تحریک انصاف کا کیاردعمل ہوتا ہے عین ممکن ہے پی ٹی آئی کے سارے مستعفی ایم این اے قومی اسمبلی کے ایوان کوایک ساتھ خیر باد کہنے کا اعلان کردیں تاہم جو بھی صورتحال ہو اس سے پی ٹی آئی کیلئے نئی سے نئی آزمائش سامنے آئے گی۔ عمران خان قومی اسمبلی کی فوری تحلیل چاہتے ہیں جبکہ اتحادی جماعتوں کا قومی اسمبلی کی مدت پوری کرنے کا عزم بھی ایک نیا چیلنج بنا ہے اور حکومتی اتحادی کیمپ کی جانب سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر عمران خان قومی اسمبلی کی تحلیل چاہتے ہیں تو پہلے کے پی کے میں اپنی اسمبلی اور صوبائی حکومت توڑیں اور باقی تینوں صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہو ں، یہ پی ٹی آئی کے سامنے حکومتی اتحاد کا اتنا دو ٹوک جواب ہے کہ اس کا بوجھ شائد ہی تحریک انصاف فوری اٹھا سکے۔ پنجاب میں گورنر کی با ضابطہ تعیناتی کے بعد اتحادی جماعتوں کی پوزیشن مضبوط ہوگئی ہے صوبائی حکومت اپنے فیصلے تیزی سے کرسکے گی حقیقی آزادی لانگ مارچ کے حوالے سے عمران خان کے اپنے جلوس میں شامل کارکنوں کے مسلح ہونے کے بیان پر وفاقی کابینہ کا شدید ردعمل سامنے آیا وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان بھی اس وقت تحریک انصاف کی قیادت اور سیاست کے اعصاب پر سوار نظر آتے ہیں پی ٹی آئی کی قیادت کی ممکنہ گرفتاری کے ڈھکے چھپے اور کھلے عام سامنے آنے والے بیانات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان اور ان کے قریبی ساتھیوں کی گرفتاری کے کسی فیصلے پر عملدرآمد ہوا تو یہ پی ٹی آئی کے لئے ایک نئی صورتحال ہوگی۔ اس حوالے سے تحریک انصاف کی قیادت نے بھی یقیناً اپنی سطح پر سوچ بچار کی ہوگی عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد ایک طرف دھڑا دھڑ حکومت مخالف بیانات جاری کر نے میں مصروف ہیں لیکن دوسری جانب یہ اطلاعات اسی تیزی سے گردش میں ہیں کہ ان کے اور عمران خان کے درمیان شدید اختلافات ہیں اور اس وقت دونوں قائدین کے درمیان خلیج حائل ہے۔ لیکن اس تاثر کی تحریک انصاف اور لال حویلی دونوں کی جانب سے تاحال کوئی تردید یا تصدیق بھی نہیں کی گئی۔ تحریک انصاف اگر لمبے عرصے تک قومی اسمبلی میں نہیں جاتی تو اس کے اراکین بھی سیاسی طور پر مشکلات کا سامنا کریں گے۔ کیونکہ وہ اس طرح اپنے حلقوں میں بھی غیر موثر رہیں گے اوروہاں ان کے ووٹروں کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔ یہ منتخب نمائندوں کیلئے ایسی مشکل صورتحال ہوتی ہے جس کا اندازہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو بھی بخوبی ادراک ہوگا۔ کیونکہ ان کا اپنا بھی آبائی حلقہ ہے ان حالات میں تحریک انصاف کو باہمی مشاورت سے سیاسی فیصلے کرنے میں سوچ بچار سے چلنا ہوگا پرامن احتجاج بھی سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ڈائیلاگ اور لچک سے چلنا بھی پائیدار اور دیرپا سیاسی جدوجہد میں بنیادی تقاضا ہوتا ہے ۔جس کے لئے ہر فریق کو اپنی اپنی سیاسی حکمت عملی پر غور وفکر کی ضرورت ہے اختلاف رائے بھی سیاسی جماعتوں میں اہم کردار ادا کر تا ہے جسے سیاسی لیڈر شپ کو اپنی فیصلہ سازی میں اہمیت دینی چاہیئے تاکہ ہمہ گیرانداز میں سیاسی عمل رواں دواں رہے .