میاں غفار
عمران خان کو بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ پنجاب میں ان کا انتخاب کہا تھا اور وہ کن پتوں پر تکیہ کرتے رہے جو آگ لگنے پر انہی کوہوا دینے لگ گئے۔ کہاں وہ وزیر اعلیٰ کے لئے ان کا اعلی ترین انتخاب عثمان بزدار اور کہاں جنوبی پنجاب میں جہانگیر ترین کے متبادل خسرو بختیار جیسا نام ۔ زبان زدِعام ہے کہ جب فیصلے عورتوں کی مشاورت سے ہوں گے تو نتائج بھی اس طرح کے ہوں گے۔ کیا قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ کافروں سے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے نہیں فرماتا کہ: ‘‘کافر اپنے لیے تو بیٹے پسند کرتے ہیں اور میرے لیے بیٹیاں، زیورات سے لدی پھندی اور دوسرے کو اپنی بات بھی نہ سمجھا سکنے والی۔‘‘ یاد رہے کہ کافر فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ جس پر قرآن مجید کی درج بالا آیت نازل ہوئی۔ اگر عمران خان کے فیصلوں پر خواتین نے حاوی ہونا تھا اور جیسا کہ معلومات کے مطابق ہوتی بھی رہی ہیں تو پھرنتیجہ بھی یہی کچھ ہونا تھا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب سمیت متعدد اہم فیصلے بھی خواتین کی مداخلت کی مرہون منت تھے تو پھر یہی کچھ ہونا تھا، جو ہوگیا ہے۔ عمران خان نے دھرنا اچانک ختم کرکے جو یوٹرن لیا ہے اس کے نتائج نہ اچھے برآمد ہوئے ہیں اور نہ ہی ہوں سکیں گے۔
عمران خان تو محض دعوے ہی کرتے رہے اور عملی اقدامات کی بجائے زبان و بیان پر ہی زور دیتے رہے مگر موجودہ حکومت ان کے خلاف عملی اقدامات کرنے جا رہی ہے جس کے نتائج اگلے چند ہفتوں میں سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ ابھی تو صرف کے پی کے میںبلین ٹری منصوبہ، مالم جبہ اور پی آر ٹی پراجیکٹ کی ابتدائی تحقیق میں ہی اربوں کی خُردبُرد سامنے آ رہی ہے اور ان تینوں منصوبوں میں ہونے والی کرپشن براہ راست پرویز خٹک کے کھاتے میں پڑ رہی ہے۔ رہی بات شفافیت کی تو اس کا فقدان اس طرح سے میگا پراجیکٹس میں سامنے آ رہا ہے جس طرح مسلم لیگ کی حکومت کے سامنے آیا تھا۔ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کا بطور وزیراعلیٰ پنجاب صاف پانی منصوبہ میں380 ارب کہاں گیا اور کسی کو بھی صاف پانی میسر نہ آ سکا۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق 300 ارب میں سے 120 ارب تو ’’اوپر اوپر‘‘ ہی سے اٹھا لیے گئے تھے اور بعد میں باقی کا 180 ارب بھی آہستہ آہستہ ہضم ہوگیا تمام تر ثبوتوں کے باوجود پی ٹی آئی کی حکومت کارروائی نہ کر سکی مگر اب پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ کسی طور پر بھی رعایت نہیں ہوگی تمام تر فائل ورک تیزی سے جاری ہے۔
ایک بات طے ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت کی کسی طور پر بھی پنجاب کی تقسیم میں دلچسپی نہیں ہے اور بتدریج جنوبی پنجاب میں علیحدہ صوبہ کا معاملہ ٹھپ ہو جائے گا ،کام شروع ہو چکا ہے۔ عمران خان کی حکومت اگر جرأت مندانہ فیصلے کرتی اور سابق صدر آصف علی زرداری کی طرح کوئی بیچ کا راستہ نکال کر گلگت بلتستان کی طرح جنوبی پنجاب کے تینوں ڈویژنل ہیڈکوارٹرز ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازیخان میں شامل دس اضلاع پر مشتمل علیحدہ انتظامی یونٹ بنا کر ا سے بااختیار بنا دیتی چاہے اس کی آئینی حیثیت بعد میں طے ہوتی رہتی، تو مسلم لیگ (ن) کی حکومت …… واپسی کی پوزیشن پر نہیں لا سکتی تھی۔ مگر اب پانی سر سے گزر چکا ہے اور عمران خان کے پاس شاید ماضی کے قصے ہی رہ جائیں گے جنہیں لے کر وہ پشاور میں ایک علیحدہ سے ’’قصہ خوانی‘‘ بازار بنا سکیں گے۔گورنر پنجاب سپوتِ بہاولپور میاں بلیغ الرحمن کی تعیناتی کے بعد حلف برداری اور پھر کابینہ کے اعلان سے یہ بات بھی اعلانیہ طور پر بتا دی ہے کہ پنجاب میں بھی اتحادی حکومت کی گرفت مضبوط ہو چکی ہے، رہا عمران خان اور ان کے احتجاج کا معاملہ تو فی الحال اس پر یہی کہا جاسکتا ہے۔
اب کون آئے گاتیری رم جھم کو دیکھنے
اے اشکبار آنکھ تیری رات ڈھل گئی