ندیم بسرا
مائیکل ڈوبز (Michael Dobbs) ایک برطانوی پارلمینٹ کا ممبر اور ایک لکھاری بھی تھا اس نے 1989 میں ایک شہر آفاق کتاب لکھی جس کا نام ہائوس آف کارڈز (HOUSE OF CARDS ) تھا، اس کتاب کو دنیا میں زبردست پذیرائی ملی اور کتاب کی فروخت بھی ریکارڈ ہوئی اس کتاب میں سیاست دانوں کے کیا ذہن ہوتے ہیں کس قسم کی سیاسی چالوں سے وہ دوسروں کو زیر کرتے ہیں اور کیسے اقتدار کے زینوں پر چڑھ کر حکمرانی کرتے ہیں سب کچھ لکھا ،کتاب اتنی مقبول ہوئی کہ اس پر برطانیہ میں 1990 سے 1994 تک ایک ریڈیو ڈرامہ بنایا گیا جس کو باقاعدہ ڈرامہ کی شکل اور کردار Neville Teller اور Andrew Davies نے دی اور بی بی سی ریڈیو میں باقاعدہ یہ ڈررامہ نشر ہوتا رہا ۔جس کے بعد دنیا کی مقبول پروڈکشن کمپنی نیٹ فلیکس نے 2013 میں اس پر ایک ڈرامہ سیریز بنائی جو بہت مقبول ہوئی ۔اس کتاب اور ڈرامہ کو دیکھ کر ہر ملک کے سیاسی حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح سیاسی چالوں سے دوسروں کو زیر کیا جاسکتا ہے ۔پاکستان کے حالات بھی اس سے مختلف نہیں ہیں کیونکہ سیاسی جماعتیں اپنے منشور اور مینڈیٹ کے احترام کا شور اس وقت ہی بلند کرتی ہیں جب انہیں اسمبلیوں سے باہر کردیا جاتا ہے ،اسمبلیوں میں بیٹھ کر عوام کی بات کرنا وہ نامناسب ہی سمجھتی ہیں ۔ایسا ہر جمہوری حکومت میں ہوتا ہے پی ایم ایل ن ،پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی جو پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں ان کی تاریخ اٹھا لیں یہاں عوامی منصوبوں پر جب بھی کام شروع ہوا تو ان منصوبوں کے مکمل ہونے سے قبل ہی ان جماعتوں کا بوریا بستر گول کردیا ،چاہے کوئی آمر آگیا اس نے جمہوریت پر شب خون مارا یا جمہوری جماعتیں ہی ایک سیاسی جماعت کے خلاف ہو کر سڑکوں پر آگئی۔
پاکستان تحریک انصاف جس کو سوشل میڈیا پر دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ ’’اب انقلاب آیا ‘‘ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے ۔اب خبر یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ممبر ان قومی و صوبائی اسمبلیوں نے لانگ مارچ اور دھرنوں کے اخراجات اٹھانے سے معذرت کرلی ہے ۔کیونکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک جلسے میں ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے تک اخراجات آتے ہیں جس میں ٹرانسپورٹ،پٹرول سٹیج،سوشل میڈیا کی کمپین،کارکنوں کے کھانے پینے کا انتظام سمیت دیگر انتظامات شامل ہیں اس حوالے سے شاہ محمود قریشی کو پارٹی کی میٹنگز میں متعدد اراکین کہہ چکے ہیں کہ اب بس کریں کیونکہ ہم مزید اخراجات آٹھانے کی سکت نہیں رکھتے اگر جلسے مزید کرنے ہیں تو پارٹی فنڈز سے پیسے دئے جائیں ۔اب پی ٹی آئی میں دو مختلف گروپس بن چکے ہیں ایک گروپ شاہ محمود قریشی کا ہے جس میں اسد عمر،بیرسٹر علی ظفر ،فواد چودھری ،شفقت محمود اور دیگر شامل ہیں اور دوسرا گروپ شہباز گل کا ہے جس میں مراد سعید،جاویدآفریدی سمیت دیگر شامل ہیں ان دونوں گروپوں کی رائے بھی مختلف ہورہی ہے ،جلسوں میں ہونے والے اخراجات اب پارٹی ممبران آٹھانے سے قاصر ہیں جس کے بعد پی ٹی آئی کی کور کمیٹی نے عمران خان کو اس بات پر قائل کرلیا ہے کہ جلسوں اور دھرنوں کی بجائے اسمبلیوں میںدوبارہ جایا جائے اور استعفوں کی بات کو ختم کیا جائے ۔دوسری خبر یہ ہے کہ عمران خان کی جماعت اب دوبارہ اسمبلیوں میں بیٹھنے کا فیصلہ کر چکی ہے جس کے لئے پی ٹی آئی اپنے ورکرز کو قائل کرنے کے لئے معقول جواز تلاش کررہی ہے اور یہ جوازبڑی مضبوط بنیادوں پر ہونا چاہئے جس سے پی ٹی آئی کے ووٹرزبھی اطمینان کا سانس لیں کہ عمران خان کا فیصلہ درست ہے ۔عمران خان کے قریبی حلقے اس بات پر قائل ہو چکے ہیں کہ اب اسمبلیوں میں دوبارہ جاکر موجودہ حکومت کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے اس کے لئے پی ٹی آئی نے اپنے اتحادیوں سے رابطے تیز کر لئے ہیں ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے پرانے اتحادیوں سے ووٹنگ میں حصہ لینے کی خواہش کا اظہار کریں گے اور ان سے مستقبل میں ان کے ساتھ مستقل اتحادیوں کے طور پر بات کی جائے گی ۔کیونکہ بلوچستان عوامی پارٹی اور ایم کیو ایم بھی موجودہ حکومت اور ان کے اتحادیوں سے نالاں ہی نظر آتی ہیں کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دھراتی ہے پھر ایسا ہو بھی سکتا ہے ۔امکان ہے عمران خان کے خلاف ووٹ دینے والے پھر موجودہ حکومت کے خلاف ووٹ دیں گے کیونکہ بلوچستان میں وزیراعلی عبدالقدوس بزنجوکے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے پر ان کی پارٹی وفاق سے نالاں نظر آرہی ہے ایم کیو ایم بھی وعدوں کی پاسداری نہ ہونے پر’’ پی پی پی‘‘ سے خوش نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی دوبارہ اسمبلیوں میں آتی ہے اور صدر پاکستان عارف علوی شہباز شریف کو دوبارہ ووٹ لینے کا کہتے ہیں تو کیا من وعن ایسا ہوجاتا ہے تو کیا پی ٹی آئی حکومت بنائے گی ؟۔ تو اس کاجواب ہوگا ، پی ٹی آئی ایسانہیں کرے گی! وہ حکومت بنانے سے معذرت کرلے گی تو اس صورت میں قومی اسمبلی ختم ہو جائے گی اور نئے انتخابات کی طرف کام شروع ہو جائے گا یہ منصوبہ تو پی ٹی آئی کا ہے تو کیا موجودہ حکومت اور اتحادی بڑے اطمینان سے اس منصوبے کو کامیاب ہونے دے گی ایسا بھی نہیں ہونے والا کیونکہ مسلم لیگ ن کے پاس نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے پاس آصف علی زرداری جیسی دو سیاسی قوتیں ہیں ہوسکتا ہے کہ انہوں نے بھی House of Cards کا ناول پڑھ رکھا ہو اور ڈرامہ سیریز بھی دیکھ رکھی ہو ۔اب ایسا تو ہونا ممکن ہے کیونکہ اب خبر یہ بھی ہے کہ سیاسی گرو آصف علی زدراری کو ایک خاص ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو گھیر گھار کے اسمبلیوں میں لائیں جیسے ہی پی ٹی آئی والے اتحادیوں کو ساتھ ملائیں اور تحریک عدم اعتماد کی بات کریں تو اسمبلی میں ان چار ممبر قومی اسمبلی کے استعفوں کاڈیکلریشن سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے ذریعے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوادیا جائے ۔کیونکہ یہ ممبران قومی اسمبلی فلور آف دی ہائو س پراپنے استعفیٰ کا خود اپنی زبانی اعلان کرچکے ہیں ۔ان میں عمران خان ،شاہ محمود قریشی ،فواد چودھری اور شیریں مزاری شامل ہیں۔ اسپیکرکے ڈیکلریشن الیکشن کمیشن آف پاکستان بھجوانے کے بعد یہ چار ممبران قومی اسمبلی ڈی سیٹ ہو جائیں گے۔ گویا پی ٹی آئی اتحادیوں کے دو تین ووٹ بڑھانے کے باوجود اپنے چار ووٹ کم کرلے گی،اب کہا تو یہی جاتاہے کہ ’’سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ‘‘ مگر پاکستان کے سیاسی لوگوں کے سینے میں بھی دل نہیں ہوتا لہذا کس کی سیاسی چال کہاں کام کر جائے یہ فیصلہ وقت ہی کرے گا ۔