اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے عمران خان کے حالیہ آزادی مارچ میں حائل رکاوٹوں سے متعلق کیس میں تحریک انصاف قیادت کے خلاف عدالتی احکامات کی مبینہ خلاف ورزی پر کارروائی کا عندیہ دے دیا ہے۔ عدالت نے ڈی جی آئی ایس آئی، سیکرٹری داخلہ، آئی بی، چیف کمشنر اسلام آباد، آئی جی اسلام آباد سے ایک ہفتے میں تفصیلی رپورٹ طلب کرلیں۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ پر امن احتجاج آئینی حق تو ہے لیکن یہ ریاست کی منظوری سے مشروط ہے۔ رپورٹس میں ناقابل تردید مواد ہوا تو پی ٹی آئی قیادت کے خلاف علیحدہ کیس میں کارروائی ہو سکتی ہے۔ جسٹس یحی خان آفریدی نے عمران خان کو توہین عدالت کی کارروائی کیلئے نوٹس جاری کردیا۔ سپریم کورٹ نے عمران خان کے دھرنے اور احتجاج سے متعلق کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے۔ 14 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا جس میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت اور مظاہرین نے احتجاج ختم کردیا ہے، لانگ مارچ کے ختم ہونے کے بعد تمام شاہراہوں کو کھول دیا گیا، آزادانہ نقل و حرکت میں کوئی رکاوٹ نہیں، عدالت میں درخواست دائر کرنے کا مقصد پورا ہوچکا۔ عدالت اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست کو نمٹایا جاتا ہے، لیکن تمام سکیورٹی ادارے ان چیمبر رپورٹ دیں۔ فیصلے میں عدالت نے عمران خان اور انتظامیہ کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے سات سوالوں کے جوابات طلب کرلیے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واقعہ پر ڈی جی آئی ایس آئی، آئی بی، آئی جی اسلام آباد، چیف کمشنر اسلام آباد سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سوالات اٹھائے ہیں کہ عمران خان نے کس وقت کارکنان کو ڈی چوک پہنچنے کی ہدایت کی؟۔ عوام کس وقت اور کیسے سیل کئے گئے زون میں داخل ہوئے۔ ریڈ زون میں داخل ہونے والا مجمع منظم یا کسی نگرانی میں تھا؟۔ کارکنان کے خلاف کیا واقعہ کے بعد حکومت کی جانب سے کوئی کارروائی کی گئی؟۔ کتنے کارکنان ریڈ زون میں داخل ہو ئے؟ سکیورٹی اداروں نے کن انتظامات کو نرم کیا؟۔ کیا کارکنان نے کسی سکیورٹی رکاوٹ کو توڑا؟۔ کیا کوئی کارکن جی نائن، ایچ نائن گرائونڈ میں پہنچے؟۔ واقعہ میں کتنے شہری زخمی یا ہلاک یا گرفتار ہوئے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ تمام ثبوتوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے گا کہ عدالتی حکم کی حکم عدولی ہوئی یا نہیں، اگر کوئی اکسانے والا ہو تو اس کی شناخت ضروری ہے۔ عدالت کا مزید کہا ہے کہ پر امن احتجاج آئینی حق ہے۔ پرامن احتجاج کا آئینی حق ریاست کی اجازت سے مشروط ہے لیکن احتجاج کے حق کو بغیر ٹھوس وجوہات کے نہیں روکنا چاہئے۔ عدالت نے فریقین کے اقدامات پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حقائق جاننے کیلئے واقعات کی تصدیق کی ضرورت ہے۔ عدالتی احکامات اور دی گئی یقین دہانیوں کو نظر انداز کرنے کیلئے علیحدہ کارروائی کی ضرورت ہے۔ آزادانہ کارروائی کیلئے قابل اعتماد مواد کی ضروت ہیر سپریم کورٹ کا مزید کہنا ہے کہ عدالت کی نیک نیتی سے کی جانے والی کوشش کی بے توقیری دیکھ کر مایوسی ہوئی۔ سپریم کورٹ کا حکمنامہ فریقین کے مابین عوام کے حقوق کے تحفظ کیلئے تھا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ فریقین کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے دیا گیا تھا۔ موجودہ صورتحال میں فریقین کی اخلاقی بلندی میں کمی ہوئی ہے۔ توقع ہے کہ پی ٹی آئی قیادت اور حکومتی عہدیدار منصفانہ ضابطہ اخلاق کی پاسداری کریں گی۔ جسٹس یحیٰ خان آفریدی نے عدالت کی جانب سے مزید مواد طلب کرنے کے آبزرویشن سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے مبینہ طور پر عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی اس لئے عمران خان کے خلاف عدالت کے پاس مواد نہ ہونے کی آبزرویشن سے متفق نہیں۔ جسٹس یحٰی آفریدی نے عمران خان کی تقریر کے متن کو اپنے فیصلے کا حصہ بنایا۔ تقریر میں عمران خان نے کارکنان کو ڈی پہنچنے کی ہدایت کی تھی۔ بادی النظر میں عمران خان کا بیان اور رویہ سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے۔ مبینہ طور پر عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی گئی۔ اس لئے عمران خان کو نوٹس جاری کر رہا ہوں کہ کیوں نہ انکے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔
تفصیلی فیصلہ
احکامات کی خلاف ورزی کے شواہد پر پی ٹی آئی کیخلاف کاروائی ہوگی سپریم کورٹ
Jun 02, 2022