قومی ٹیم کے چیف سلیکٹر محمد وسیم کا بیان نظر سے گذرا، فرماتے ہیں عماد وسیم فٹنس مسائل پر قابو پا کر سکواڈ میں واپسی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمارے چیف سلیکٹر اتنی شاندار نظر رکھتے ہیں کہ شاید ہی دنیا میں کوئی ان جیسی دور کی نظر رکھتا ہو، یہ کھلاڑی کو دور سے دیکھ کر ہی پہچان جاتے ہیں کہ وہ فٹ ہے یا ان فٹ، یہ دور کی نظر میں ایسا کمال رکھتے ہیں کہ جسے ٹیم میں شامل کرنا ہو اسے دس میل دور کھڑا کر کے سلیکٹ کرتے ہیں تاکہ فخر سے بتا سکیں کہ ٹیم کے لیے کس ہیرے کو منتخب کیا ہے۔ یہ ایسے کمال کے چیف سلیکٹر ہیں کہ اعظم خان اور شرجیل خان جیسے سپر فٹ کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کر کے ایک نئی مثال قائم کی۔ اس سلیکشن کے بعد کھلاڑیوں نے سمجھا کہ شاید فٹنس کے مقرر کردہ معیار میں کوئی تبدیلی ہوئی ہے۔ چونکہ وہ تبدیلی کے دور سے چیف سلیکٹر چلے آ رہے ہیں اس دوران ایسی ایسی تباہ کن تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں کہ لوگ کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں۔ ایسی تباہی ہوئی ہے کہ مائیں بچوں کو ڈرانے کے لیے کہتی ہیں چپ ہو جاؤ نالائقو ورنہ تبدیلی آ جائے گی۔ یہ اسی دور پرفتن سے ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں اس لیے جب بھی کسی کھلاڑی کی فٹنس بارے بات کرتے ہیں تو اچھے بھلے سنجیدہ انسان کو ہنسی کا دورہ پڑ جاتا ہے۔ جو اعظم خان اور شرجیل خان کو منتخب کرے اور پھر کسی اور کی فٹنس پر عذر پیش کرے تو مذاق ہی بنے گا۔ جب سارا نظام یاسر شاہ کو ان فٹ کہہ رہا ہو عین اسی وقت وہ لمبی لمبی ڈائیو کر کے کیچ لے رہا ہو اور وکٹیں حاصل کر رہا ہو ان حالات میں سلیکشن کرنے والے کسی کھلاڑی کو ان فٹ کہہ کر ڈراپ کر دیں تو شکوک و شبہات کا پیدا ہونا معمولی بات ہے۔ یہ فٹنس پالیسی تو بالکل جونیئر کرکٹ میں عمر کی تصدیق جیسی ہے بورڈ کرکٹرز کو اوور ایج قرار دیتا ہے والدین تصدیق کے لیے نکاح نامہ پیش کر دیتے ہیں پھر کسی کے پاس کوئی جواب نہیں رہتا۔ ایسی سلیکشن کے بعد فیصلہ تو یہ کرنا ہے کہ کھلاڑی فٹنس مسائل کا شکار ہیں یس انہیں منتخب کرنے والے ان فٹ ہیں۔
نئے پاکستان میں رہتے رہتے لوگ پرانے پاکستان میں واپس آ چکے ہیں پرانے پاکستان میں واپسی کے بعد بہت سے لوگ کرکٹ بورڈ میں بھی تبدیلی کے خواہش مند ہیں۔ گذشتہ روز ایل سی سی اے گراؤنڈ جانے کا اتفاق ہوا کچھ دل جلے وہاں ملے ان کا پہلا سوال ہی یہ تھا کوئی تبدیلی آ رہی ہے یا نہیں، میں نے پوچھا آپکو کیا مسئلہ ہے جواب ملا جناب جب آپ برسوں سے ایک گراؤنڈ میں کھیلتے ہوں اور اچانک ایک تبدیلی کے نتیجے میں آپکی گراؤنڈ میں نقل و حرکت محدود کر دی جائے ہر وقت ڈنڈے والے سر پر سوار ہوں، ہر وقت گراؤنڈ بند ہونے کا دھڑکا لگا رہے تو کیا تبدیلی کی خواہش یا دعا کرنا غلط ہے۔ دو تین سال ہم نے جس ذہنی اذیت میں گذارے ہیں اس کا کوئی حساب نہیں دے سکتا۔ بے خوف کرکٹ کھیلنے کا سبق دینے والوں کے دور میں ہم ہر وقت خوف کے سائے میں کرکٹ کھیلتے ہیں۔ ایسے افسران جن کا کلب کرکٹ کے ساتھ دور دور کا کوئی تعلق نہیں وہ اقتدار میں ہیں۔ جو میرٹ پر ہماری کلب کی ٹیم میں نہ آئیں وہ "بابو" بنے بیٹھے ہیں۔ اس لیے ہم تبدیلی کے منتظر ہیں۔
خبر ہے کہ ایشیا ہاکی کپ کے پانچویں پوزیشن کے میچ میں پاکستان نے بنگلہ دیش کو صفر کے مقابلے میں آٹھ گول سے ہرادیا۔ پاکستان ہاکی کہاں کھڑی ہے اگر آپ حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو اس ایشیا کپ میں پاکستان کی بنگلہ دیش اور عمان کے خلاف کامیابی کے فرق کو دیکھ لیں۔ بنگلہ دیش سے پہلے پاکستان نے عمان کو دو کے مقابلے میں پانچ گول سے ہرایا یہ دو میچ ہماری حقیقت بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔ پاکستان اب صرف ایسی کمزور ٹیموں کے خلاف ہی کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ دیگر ٹیموں کے خلاف گول نہیں ہوتے تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ اچھی ہاکی کھیلنے والوں کے خلاف ہمارے ہاتھ پاؤں پھولے ہوتے ہیں۔ اس صورت حال کے ذمہ دار تو سب ہیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پہلے ہم عالمی درجہ بندی پر افسردہ ہوتے تھے اب ایشیا میں بھی نچلے نمبروں کی طرف جا رہے ہیں۔ بلند و بانگ دعووں اور بیانات سنتے سنتے آج ہم اس سطح تک پہنچے ہیں۔ ایک نسل نے ہاکی کا عروج دیکھا ، ایک نسل نے ہاکی کو تباہ ہوتے دیکھا آنے والی نسل تک کھیل کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں اس کی قومی شناخت برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو دن رات ایمانداری کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حکمران اپنی ذمہ داری نبھائیں، پی ایچ ایف والے اپنا کام کریں۔ ہاکی رہے گی تو سب کی باری آئے گی۔