تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود ”بلاول بھٹو“ کا واضح موقف تھا کہ ”پی ٹی آئی“ پر پابندی لگانے کے حق میں نہیں ۔ پیپلز پارٹی کے ایک اور رہنما نے ”پی ٹی آئی“ کو ”میثاق جمہوریت“ پر دستخط کرنے کی دعوت دی خالصتا جمہوری سوچ کا عکاس رویہ۔ بقول اُن کے کہ بیورو کرسی بیوروکریٹ کا دفاع کرتی ہے تو سیاستدان ایک دوسرے کا دفاع کیوں نہیں کر سکتے ۔ واقعی اتنا کیا طوفان آگیا ہے کہ مل بیٹھ کر بات ہی نہیں ہو سکتی ۔ اچھا معلوم ہوا جب ایک مسلم لیگی لیڈر نے ”عمران خان“ کی صحت بابت پریس کانفرنس کے متعلق کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا اِس طرح کے رجحان سے یقینا ”کیمرہ“ بہت دُور تک اور بہت لوگوں تک جا پہنچتا ہے ہر وہ بات۔ واقعہ جو ذاتی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ ہمارا ”دین حنیف“ اُسے اُچھالنے کی کِسی بھی صورت میں اجازت نہیں دیتا ۔ عیبوں پر پردہ ڈالنے کا واضح فرمان مبارکہ ہے تو وہاں محبت کا عالم دیکھیں کہ خود انسان کو بھی اپنے گناہوں کا پرچار کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ انسانی عزت و نفس تو طویل عرصہ سے اہل سیاست کی لُوٹ مار میں دفن ہو چکی ہے انسانی تکریم کا ادنیٰ ترین معیار بھی کہیں دِکھائی نہیں دیتا ہر چیز اپنی تصویروں کے ساتھ جن سے ووٹ لیتے ہیں اُن کو گھنٹوں قطار میں کھڑا کر کے ذلیل و خوار کرنے کے بعد مغلیہ شان سے تھمانا ۔ کِس ملک میں ایسا ہوتا ہے ؟کِسی ایک جمہوری کیا بادشاہی نظام والے ملک کا ہی نام بتا دیں ۔ ایک اشتہار بازی دوسرا تقسیم چیک کے نام پر اربوں روپے پروٹوکول کی نذر۔ سلیوٹ ”ہائیکورٹ“ کو۔ آٹا تقسیم کے معاملہ میں اِس فعل کو کرپٹ پریکٹس قرار دیا۔ حد تو یہ ہے کہ ایک وقت میں مخالفت کرنے والے موقع ملتے ہی بد دیانتی میں ملوث ہونے کو عار نہیں سمجھتے ۔ حق سمجھتے ہیں مالِ غنیمت کی طرح۔ اِس قبیل کے تمام افعال ۔ حرکات کو اب رُکنا چاہیے۔ رُکنا تو یہ بھی چاہیے کہ سیاست کو مزید آلودہ نہ کریں۔ ذاتی دشمنی کی حد تک آپہنچی تصویر کو اب سب مل کر مٹائیں ۔ غریبوں والی عادت ٹھیک تھی کہ بارات والے دن لڑ جھگڑ کر ایک دوسرے کو لہولہان کرنے والے اگلے دن اکٹھے بیٹھ کر ولیمہ کھا رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ سب نے اِدھر ہی رہنا ہے آج کوئی حکومت میں کل کوئی اپوزیشن میں آج کوئی پروٹوکول میں کل کوئی جیل کی ایذارسانی سہتا ہوا۔ سیاست کی اساس عوام کی خدمت پر اُستور رکھیں ۔ دہائی قبل سے سیاست میں در آئے انتقام کے عنصر کو سامنے رکھتے ہوئے کہونگی کہ ہر اُس فعل سے گریز کریں جو کل اپنے گلے نہ پڑ جائے۔
”پاکستان کھپے سے لیکر میثاق پاکستان ۔ میثاق معیشت ۔ میثاقِ اخلاق“ اور اب ”میثاقِ عوام ۔ میثاقِ فوج”۔ درجن ہا کالمز گواہ ہیں کہ نرم۔ شائستہ رویوں اور جمہوری آداب کی ہمیشہ تعریف کی۔ کبھی نہیں دیکھا کہ کون ہے؟ کِس سے وابستگی ہے ؟ وابستگی ایک ایسی عادت ہے کہ تقریباً ایک مدت کے بعد تبدیل ہو جاتی ہے۔ ”تغیر ہے اِک زمانے کو“ مگر فوج کے ساتھ وابستگی فوج میں گزارے سال کبھی نہیں بُھول سکتے ۔ صرف ”فوجی“ ۔ فوج کی ملکی سلامتی کے لیے انتھک کاوشیں ہیں ۔ فوج ۔ ہماری سالمیت ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ”عدلیہ“ ملکی بقا کی علامت ہے آئین کی پاسدار ہے۔ اگر درست فیصلے نہ کیے گئے تو ؟ قارئین درست فیصلے وہ ہوتے ہیں جو صرف ہمارے حق میں ہوتے ہیں ۔ عدلیہ کا اپنا کردار صحیح طور پر نبھانا چاہیے ۔ عدلیہ سیاست نہ کرے ۔ فوج مداخلت ختم کر دے ۔ ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ۔ یہ ہے ہمارا اصل بیانیہ پر ترتیب بدل جاتی ہے۔ حکومت میں ہوں تو پہلا بیانیہ ۔”اپوزیشن“ میں ہوں تو دُوسرا بیانیہ۔
اندرونی ادارہ جاتی تقسیم حد کراس کر چکی ہے ۔ معاشرہ بُری طرح سے منقسم ہے عام اور درمیانہ طبقہ کی کمرٹوٹ چکی ہے۔ معیشت بس ؟ کیا اب بھی مزید وقت ہے ہمارے پاس بچنے کا ؟ اب بھی سنہری موقع ہے کہ بچی کھچی بساط۔ دانشمندی ۔ سیاسی بصیرت کو قبول کرنے کا واحد حل یہی ہے کہ تمام سیاستدان ”ایک صفحہ“ پر آجائیں ۔ ایک صفحہ ا زحد ضروری ہے کیونکہ ملک ایک ہے ۔ سیاست کا مقصد ایک ہے ۔ وفاقی پارلیمان ایک ہے۔ چار اکائیاں ایک آئین تلے سرگرم عمل ہیں تو بنیادی کردار جو تسلیم کیا جانا ضروری ہے وہ ہے ”عوام“ ۔بڑے دلکش بڑے دلفریب نعرے لگا دئیے ۔جدید ترین اصطلاحات گھڑ لیں اب واپسی بنتی ہے کیونکہ سبھی کچھ خطرے میں ہے عوام نہیں تو کچھ نہیں ۔ منشور ۔ آئین پر عمل لازمی تقاضا بن گیا ہے کیونکہ آئین نہیں تو ملک نہیں ۔ عوام ہیں تو ملک ہے ملک ہے تو ”فوج“ ہے۔ عوام ملک کے وجود کی علامت اور فوج ملک کے تحفظ کی علم بردار۔ تو بنتا ہے کہ اب سبھی ایک باعمل ۔ ٹھوس میثاق پر دستخط کر دیں ۔ دونوں کے احترام کا ”میثاق“۔ ”میثاقِ عوام ۔ میثاقِ فوج“ بہت ضروری ہے۔