میرے بچپن کے ہیرو مرگئے! 

یہ آج کل کی کشاکش اورنوچاکھسوٹی کازمانہ نہیں تھا۔ہمارے بچپن میں لوگ صبح ناشتے میں اخبارکے کالم چائے میں بھگوبھگو کر پڑھتے اور رات نوبجے کاسرکاری ٹیلی ویڑن کا خبرنامہ سن کرسوجاتے تھے۔جونوجوان کچھ پڑھنے لکھنے کے شوقین ہوتے اپنے ذوق کی تشفی کے لیے رسائل وجرائد کے مطالعے سے دل بہلاتے تھے۔ہمارے گاﺅں میں ایک انتہائی نیک سیرت حلوائی تھے،جن کے پاس بڑے بوڑھے اخبار پڑھنے اورچائے پینے آتے تھے۔مرحوم گرم گرم مٹھائیاں بنانے کے ساتھ ساتھ بچوں کی کہانیاں بھی فروخت کرتے تھے، شعور کی آنکھ کھلتے ہی انھی سے عمروعیار،ٹارزن،ڈاکٹرسلامبو،کلیلہ دمنہ ،سندبادجہازی، شیخ چلی ، ملانصیرالدین اور دیگرموضوعات پر تحریرکردہ عامیانہ اندازکی کہانیاں خریدکرپڑھیں۔ میں ان کے چندا±ن مستقل گاہکوں میں سے ایک تھا،جس سے وہ ادھاربھی کرلیاکرتے تھے۔ جب ذرا بڑے ہوئے تواس نوعیت کی کہانیاں چھوٹی پڑگئیں۔بچپن کے دوستوں کی دیکھا دیکھی عمران سیریز اورکیپٹن جمشید کی کہانیاں وغیرہ پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ابن صفی ،اشتیاق احمداورمظہر کلیم ایم اے کے تحریر کردہ یہ جاسوسی ناول ہم دوستوں کی زندگی میں اس حد تک دخیل تھے کہ ہم نے سکول کے دوستوں نے مل کر ایک جاسوسی تنظیم بنائی جس کے اغراض ومقاصد کا تو معلوم نہیں تھا۔البتہ دوستوں کو عمران سیریز کے مختلف کرداروں کے مطابق خفیہ نام بھی دئیے گئے تھے۔چند کھنڈر نما مکانات تنظیم کے ہیڈکوارٹرز تھے۔ہم نے انھی کتابوں کو سامنے رکھ کر خفیہ تحریر بھی ایجاد کی۔یہ بڑا عجیب وغریب زمانہ تھا، خیال وخواب کی دنیاﺅں پردستکتیں دیتا ہوا بڑا عجیب سا زمانہ۔ابن صفی ،مظہرکلیم اوراشتیاق احمد میرے اردو ادب کے ساتھ تعارف کااولین وسیلہ بنے۔
 جب میں روزگار کے سلسلے میں ملتان میں قیام پذیر تھا۔ایک دن کالج کے پرنسپل آفس میں ایک دراز قامت اور بارعب شخصیت کو براجمان دیکھا،ہم چند اساتذہ کسی مسئلے پر بات کررہے تھے کہ کسی نے اشارہ کیا” یہ مظہر کلیم صاحب ہیں، اور ان کے بچے ہمارے کالج میں زیر تعلیم ہیں“۔میرا ذہن بچپن کے اس بے نام سے تحرک کی جانب چلا گیا۔میں اپنی زندگی میں مختلف ادبی شخصیات سے ملا ہوں لیکن مظہر صاحب کو دیکھ کر میرے دل کی جو کیفیت ہوئی وہ بیان سے باہرہے۔اس کے بعد کبھی کبھار ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔میں جان بوجھ کر ان سے عمران سیریز کی تحریروں کے بارے میں گفتگو نہیں کرتا تھا کہ بچپن کابنا ہوا تاثر کہیں تبدیل ہی نہ ہوجائے۔ان کا موضوعِ گفتگو شہر کی مختلف علمی و ادبی شخصیات ہوتیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مظہر کلیم نے عمران سیریز تحریر کرنے کے لیے ابن صفی کے چراغِ فکرسے اپنا چراغ روشن کیا۔اسراراحمدابن صفی نے آزادی کے بعدایک خاص مقام اورمرتبہ پیداکیا،ان کی جاسوسی کہانیوں کے معترفوں میں مولوی عبد الحق، پروفیسر مجنوں گورگھپوری، محمد حسن عسکری، حسن نثار، امجد اسلام امجد، قاضی اختر جوناگڑھی، فیلڈ مارشل ایوب خان اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے اہم لوگ شامل ہیں۔ ان کی تحریروں کو مغربی دنیا سے اگاتھا کرسٹی، اور کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ جیسی خواتین نے توجہ کے لائق سمجھاہے۔ ہماری موضوعہ شخصیات میں سے ایک مظہرکلیم ایم اے 22 جولائی 1923ءکو ایک پولیس افسر حامدیارخان کے گھرپیداہوئے۔انھوں نے ایف۔اے اوربی۔اے ایمرسن کالج ملتان سے کیا،انھی دنوں پنجاب یونیورسٹی نے ملتان میں اپنا نیاکیمپس بنایاتھا۔اس کے اولین سیشن میں انھوں نے وہیں سے ایم۔ اے( اردو) کا امتحان پاس کیا۔انھوں نے مختلف انشورنس کمپنیوں میں ملازمتیں کیں،اس کے بعدایل۔ایل۔بی کیا اوروکالت کو بطورپیشہ اختیارکیا۔وہ جزوقتی طورپر ریڈیو پاکستان سے زرعی فیچررائٹر،کمپئیراورڈرامہ نگار کے طورپرمنسلک بھی رہے۔کچھ عرصے کے لیے انھوں نے صحافت کوبھی حصول رزق کا ذریعہ بنایا۔مظہرکلیم کی زندگی مسلسل محنت سے عبارت ہے۔1956ءکا سال ان کی زندگی میں اہمیت کاحامل ہے۔ایک تواس سال ان کی شادی علامہ محمداقبال کے ایک دوست علامہ اسدملتانی کی صاحب زاد ی سے ہوئی۔دوسرا انھوں نے اپنی زندگی کاپہلا جاسوسی ناول ”ماکازونگا“کے نام سے تحریر کیا۔اس ناول نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے اورانھیں ابن صفی کے بعد جاسوسی ادب کی دنیا کا اہم ترین مقام عطاکردیا۔
ابن صفی،اشتیاق احمداور مظہرکلیم ایم اے نے سیکڑوں کی تعدادمیں ناول اور ہزاروں کی تعداد میں چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھیں۔عام طور پراسے نوع کی تحریروں کوسستے ادب میں شمارکیاجاتا ہے،حالانکہ ایسانہیں،ایک خاص عمرکے نوجوانوں میں ان ناولوں نے حب الوطنی کاجذبہ پیداکیا۔جب سے عالم گیریت کے تحت ہم ”عالمی گاﺅں“کا حصہ بنے ہیں، دنیا ایک بازیچہ اطفال کی طرح ہماری انگلی کے ایک اشارے پرمنکشف ہوجاتی ہے۔بہت سی قدروں کا نقصان ہواہے،عوامی مزاج میں ایک خاص قسم کی محرومی پیداہوئی ہے۔اس سے پہلے ایسا نہ تھا۔مثال کے طور پریہاں ابن صفی کے ناولوں میں سے کچھ اقتباسات دیکھیے،اندازہ ہوگا کہ ان کے جملے اپنے کٹیلے پن کے لحاظ کسی اورسے کم نہیں:
”شطرنج کی بساط سے ایک مہرہ گ±م ہوجائے تواس کی جگہ پتھررکھ لیتے ہیں۔اہمیت مہرے کی نہیں کھیل کی ہوتی ہے“(جہنم کی رقاصہ)
”آدمی کس قدر بے چین ہے، مستقبل میں جھانکنے کے لیے۔ شاید آدمی اور جانور میں اتنا ہی فرق ہے کہ جانور مستقبل سے بے نیاز ہوتا ہے اور آدمی مستقبل لیے مرا جاتا ہے۔“(سہ رنگاشعلہ)
”اگر میں اس سڑک پر ناچنا شروع کردوں تو مجھے دیوانہ کہو گے لیکن لاشوں پر ناچنے والے سورما کہلاتے ہیں۔ انہیں اعزاز ملتے ہیں، ان کی چھاتیاں تمغوں سے سجائی جاتی ہیں۔“(خطرناک لاشیں)
”یہاں اس ملک میں تمہارے ناپاک ارادے کبھی شرمندہ تکمیل نہیں ہو سکیں گے۔ یہاں کی فضا میں ایسا معاشرہ زندہ نہیں رہ سکتا جو خدا کے وجود سے خالی ہو۔“(جہنم کی رقاصہ)
ہمارے لڑکپن کو علم وادب کی دولت سے آشنا کرنے والے ان قیمتی لوگوں کی عمریںملکی سرحدوں کے لیے الفاظ کے حفاظتی قلعے بناتے گزریں۔ان بزرگوں کے ناول اورکہانیاں پڑھ پڑھ کرجوان ہونے والے اہل کمال نے آخر ان کواہمیت کیوں نہ دی۔یورپ اور امریکہ میں ہیری پوٹر،سپرمین اورسکس ملین ڈالرمین جیسے سیریزکوبعدمیں الیکٹرانک میڈیا پر ڈرامائی یافلمی صورت میں پیش کیا گیا۔ہم نے اپنے بنے بنائے کرداروں کو آخر کیوں نظراندازکیا،(فاعتبروایااولیٰ ابصار)۔بقول خواجہ حیدرعلی آتش:
آدمی کیاوہ نہ سمجھے جوسخن کی قدرکو
نطق نے حیواں سے مشت ِخاک کو انساں کیا
ابن صفی ،اشتیاق احمداورمظہرکلیم ایم اے اب دنیامیں نہیں رہے۔ مظہرکلیم کی وفات کی خبرسنی توپرانی یادوں نے گھیراﺅ کیا۔ان کی وفات کی خبرسن کراچانک یوں لگا جیسے میرے ماضی کی دنیامیں موجود عمران سیریز کے سارے کردار عمران،تنویر،ایکس ٹواورجولیا وغیرہ سب ایک ایک کرکے مرگئے ہیں۔میرے بچپن کے چند سنہرے سالوں کادم گ±ھٹ گیا ہے اور میں ہینگر پہ لٹکے ہوئے سویٹر کی طرح ماضی اورمستقبل کے درمیان کہیں معلق ہوں۔

ای پیپر دی نیشن