شیخ الاسلام السید محمد بن علوی مالکی

مکہ مکرمہ کے عظیم عالم وعارف ، محدث حجاز
شیخ الاسلام السید محمد بن علوی مالکی رحمہ اللہ اوران کے افکار
ملک محبوب الرسول قادری
mahboobqadri787@gmail.com 
محدث حجاز شیخ الاسلام السید محمد بن علوی مالکی رحمہ اللہ کی شخصیت ماضی قریب کے ان خوش نصیب افراد میں سے ایک ہے جنہوں نے مختصر سی عمر میں  اپنی علمی وعملی اور فکری خدمات کے ذریعہ سے عالمی اُفق  پر اپنی ثقاہت کا لوہا منوایا ۔ آپ کا سن ولادت ۱۹۴۳ء ہے ،۲۸ واسطوں سے آپ کا شجرۂ نسب باب مدینۃ العلم مولائے مرتضیٰ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے جاملتا ہے ۔ آپ حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی اولاد سے ہیں ۔ابتدائی تعلیم مکہ مکرمہ اور پھر دنیا کے عظیم علمی مرکز جامعۃ الازھر(مصر)سے فارغ التحصیل ہوئے۔ جامعہ اُم القریٰ مکہ مکرمہ میں استاذ رہے۔ آپ حرم مکی مالکیہ کے نامور مدرس تھے ۔قرآن کریم حفظ کیا اور ساری زندگی اُسے حرز جاں بنائے رکھا ۔ گھرکاماحول شروع سے ہی دینی وعلمی رہا ۔ساری دنیا میں آپ کے خاندان کا علمی فیض تقسیم ہوتا رہا ۔آپ کے جد اعلیٰ الشیخ السید ادریس بن عبد اللہ کامل الحسنی سلطنت ادریسیہ مراکش کے بانی اور اولین حکمران تھے۔ اہل اللہ میں شمار تھا ،مشہور ولی اللہ تھے۔ الحمد للہ مجھے الشیخ علوی المالکی کے ساتھ ۲۰ نومبر ۱۹۹۵ئ؁ کا بہت بھرپور دن گزارنے کا شرف ملا۔ آپ پاکستان کے دورہ پر لاہور تشریف لائے تھے۔جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو لاہور، ادارہ منہاج القرآن ماڈل ٹائون اور جامعہ اسلامیہ لاہور (فصیح روڈ) کے تینوں پروگراموں میں ان کے ساتھ شرکت کی حاضری نصیب ہوئی ۔ جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو میں آپ نے محدث کچھوچھوی ہال میں اہل علم ودانش سے خطاب کیا اور اہل علم سے ملاقاتیں کیں۔ بڑے علمی ذخیرہ کامعائنہ کیا۔ شہید پاکستان ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی ، شیخ الحدیث مولانا عبدالحکیم شرف قادری،محقق العصر مفتی محمد خان قادری، علامہ محمد خلیل الرحمن قادری ،(راقم)ملک محبوب الرسول قادری ، مولانا علی احمد سندھیلوی، علامہ محمد اسلم شہزاد قادری، علامہ عبد الحق ظفر چشتی، پیرزادہ علامہ اقبال احمد فاروقی اور جامعہ نعیمیہ کے اساتذہ کرام کی بڑی تعداد موجود تھی ۔آپ نے فرمایا کہ مجھے فخر ہے کہ برصغیر پاک وہند کے عظیم عالم اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مولانا شاہ احمد رضاخان محدث بریلوی کے ساتھ مجھے صرف ایک واسطہ سے نسبت حاصل ہے۔میرے دوشیوخ ایسے ہیں جنہیں براہِ راست امام احمد رضا محدث بریلویؒ سے خلافت واجازت کا شرف حاصل ہے ۔
ڈاکٹر محمد بن علوی مالکی کی کتاب’’ذخائر محمدیہ‘‘ کااردوترجمہ حضرت مفتی محمد خان قادری اور عزیز گرامی ڈاکٹر غلام شبیر قادری کے قلم سے ہوچکا تھاجسے علامی دعوت اسلامیہ لاہور نے شائع کیا تھا۔ اس کتاب ’’ذخائر محمدیہ‘‘ میں نہایت حکیمانہ انداز سے فاضل مصنف نے فضائل وشمائل نبوی اور آپؐ کی ذات اقدس کے بارے میں مسلمان کے مطلوبہ عقائد کو بیان فرمایا ہے۔ ۔(ذخائر محمدیہ:۱۹)۔ سچی بات یہ ہے کہ الشیخ محمد بن علوی المالکی کی یہ کتاب عظیم علمی سرمایہ اوربارگاہ عالی جناب میںآداب سکھانے کا بہترین ذریعہ ہے۔
 شیخ محمد بن علوی المالکی ماہنامہ سوئے حجاز لاہور کے دفتر میں قیام فرما ہوئے تو راقم ملک محبوب الرسول قادری نے سوئے حجاز کے شمارے اور اپنے ابتدائی دور کی چند کتابیں پیش کیں ۔ الشیخ علوی المالکی نے کمال شفقت سے تحسین وآفرین فرمائی ،دعائوں سے نوازا۔پاکستان میں جانشین حضرت فقیہہ اعظم مفتی محمد محب اللہ نوری کو بھی آپ سے خوب شرف نیاز حاصل تھا۔بلکہ آپ کے وصال مبارک جو۲۸اکتوبر ۲۰۰۴ئ؁ کومکہ مکرمہ میں ہوا تھاکے بعد نامور محقق حضرت عابد حسین پیرزادہ کی کتاب محدث حجاز کوشایان شان عمدہ معیار کے ساتھ شائع کرنے کا اعزاز بھی آپ ہی کوحاصل رہا۔ پاکستان میں یہ کتاب الشیخ محمد بن علوی المالکی کے حوالہ سے منفرد مقام کی حامل کتاب ہے۔ 
آپ حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ ؓ کی اولاد شریف سے ہیں۔ ۱۵ رمضان حضرت امام حسنؓ کا یوم ولادت ہے جبکہ شیخ المالکی ۱۵رمضان ۱۴۲۵ھ کومکہ مکرمہ میں جمعۃ المبارک کے دن تقریباً ساڑھے پچپن برس کی عمر میں وصال فرما گئے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ دنیا اس عظیم ہادی وراہنما کو ہمیشہ یاد کرتی رہے گی۔ آپ کی آخری آرام گاہ جنت المعلیٰ مکہ مکرمہ میں حضرت اُم المومنین سیدہ خدیجہ الکبریٰؓکے قرب میں بنی ۔ آپ کا شجرۂ علمی اس قدر مضبوط تھا کہ آپ کو پندرہویں صدی ہجری کامجدد ،محدث الحرمین اور محدث حجاز جیسے القاب سے یاد کیاجاتا تھا ۔آپ ایک سو سے زائد علمی وتحقیقی کتابوں کے مصنف تھے۔ معراج حبیب اور ’’مفاہیم یحب ان تصحح ‘‘بہت مشہور ہوئیں۔علوم القرآن پر آپ کاکام زبدۃ الاتقان قابل رشک ہے۔ثانی الذکر کتاب کا اردوزبان میں ’’اصلاح مفاہیم‘‘ کے نام سے ترجمہ بھی ہوا تھا۔ ان کی یہ کتاب ان کے افکارونظریات کے اظہار کے ساتھ ساتھ ملت واُمت کی وحدت کی بنیاد بھی بن سکتی ہے ۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں۔  
محدث حجاز الشیخ محمد بن علوی مالکی نے شیخ ابولافرج بن قدامہ الحنبلی امام الحنابلہ وصاحب الشرح الکبیر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جب حاجی حج سے فارغ ہوجائے تو نبی کریم ؐ اور آپ کے دونوں ساتھیوں کی قبور کی زیارت اس کے لیے مستحب ہے ۔ پھر وہ الفاظ  نبی کریم کی خدمت میں سلام پیش کرنے کے وقت کہے جاتے ہیں،ان میں یہ بھی ذکر ہے، آپ کے پاس اپنے گناہوں پر استغفار کرتا ہوا آپ کو اپنے رب کی بارگاہ میں شفیع بنانے کے لیے حاضر ہوا ہوں ۔اے میرے رب! میں آپ سے سوال کرتا ہوں ،آپ میرے لیے مغفرت واجب کر دیں جیسا کہ آپ نے مغفرت اس شخص کے لیے واجب کی جس کو آپ نے حیاتِ طیبہ عطا کی ہو ۔اے اللہ ! نبی کریم ؐکو پہلا سفارشی ،کامیاب سائل اور اکرام الاولین والآخرین بنا دے
الشیخ السید محمد بن علوی مالکی قدس سرہ نے اپنی  مایہ ناز کتاب ’’مفاہیم یحب ان تصحح ‘‘میں اسی خوش نصیب صحابی کا واقعہ بڑے والہانہ انداز میں لکھا ہے جن کے ساتھ سرکار کریم ؐ بہت زیادہ شفقت فرماتے تھے ۔ نبی کریم ایک دن آپ بازار تشریف لے گئے تو ان کو کھڑا دیکھا تو آپؐ حضرت زاہر کی کمر کی طرف سے تشریف لائے اور ان کو اپنے دست مبارک سے اپنے سینے سے لگا لیا ۔ حضرت زاہر نے محسوس کر لیا کہ نبی کریم ؐ ہیں۔ پھر نبی کریم ؐ فرمانے لگے کہ ان غلام کو کون خریدے گا؟ تو حضرت زاہر ؓ نے نبی کریم ؐسے عرض کیا کہ مجھے تو بہت ہی بے دام پائیں گے۔ نبی کریم ؐنے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک تم بڑے قیمتی ہو۔(المواہب اللدنیہ:ج۱ص۲۹۷)۔

ای پیپر دی نیشن