امام ضامن علی ابن موسی الرضاعلیہ السلام
(یوم ولادت 11ذیقعد۔۔یوم شہادت 23ذیقعد
آغا سید حامد علی شاہ موسوی ؒ
امام ضامن علی ابن موسی الرضانے اپنے دادا بزرگوار حضرت امام جعفر صادقؑ کی شہادت کے ٹھیک 16روز بعد11ذیقعد148ھ صفحہ ارضی پر قدم رکھا۔ آپ کا اسم گرامی علی ؑکنیت ابو الحسن القاب صابر‘ذکی‘ولی ‘رضی ہیں سب سے زیادہ مشہور لقب رضاہے ۔علامہ طبرسی تحریر فرماتے ہیں کہ آپ کو ’رضا ‘ اس لئے کہتے ہیں کہ آسمان و زمین میں خداوند عالم ،رسول اکرم ؐ ،آئمہ اور تمام مخالفین و موافقین آپ سے راضی تھے (اعلام الوریٰ)امام ضامن علی ابن موسی الرضاؒکی نسبت سے آج بھی پوری اسلامی دنیا میں وعدوں کے بھرم ،رشتوں کی مضبوطی ،خیر و برکت کے حصول اورسفر میں سلامتی کیلئے امام ضامن باندھا جاتاہے۔
آپ کا شجرہ نسب 6واسطوں سے خیر البشررسول خداؐ محمد مصطفیؐ تک جا پہنچتا ہے ۔آپ کی والدہ گرامی کا اسم گرامی نجمہ جبکہ بعض مقامات پر خیزان‘ثمانہ ‘طاہرہ اور بعض دوسرے نام بھی منقول ہیں ۔ یہ عظیم ترین خاتون اپنے زمانے میں انسانی کمالات کے اعلیٰ درجے پر فائز ہونے کے ساتھ عزت و حرمت میں بے مثل تھیں ۔آپ کے والد گرامی امام موسیٰ بن جعفر الکاظم کو باب الحوائج کے لقب سے یاد کیاجاتا ہے۔امام شافعی کا مشہور قول ہے کہ حضرت امام موسی کاظم کا مزار قبولیت حاجات کا ذریعہ ہے ۔(تاریخ بغداد)
علامہ عبد الرحمن جامی تحریر فرماتے ہیں کہ روئے زمین پر اپنے عہد میں کوئی امام علی بن موسی الرضا کی مثال و نظیر نہ تھاآپ کی باتیں پر ازحکمت ،عمل درست اور کردار محفوظ عن الخطا ء تھاآپ علم و حکمت سے بھرپور تھے (شواہد النبوۃ )۔علامہ عبید اللہ لکھتے ہیں کہ ابراہیم ابن عباس کا کہنا ہے میں نے علی بن موسی الرضا سے بڑا عالم دیکھا ہی نہیں (ارجح المطالب صفحہ 255)۔آپ ہر زبان میں اور ہر لغت میں فصیح و دانا ترین تھے جو شخص جس زبان میں بات کرتا آپ اس کو اسی زبان میں جواب دیتے (روضۃ الاحباب)۔رجال کشی ،دمعۃساکبہ میں ہے کہ آپ اہل زمانہ میں اعلم ترین اور کثیر الصوم و عبادات تھے ۔
اما م علی بن موسیٰ الرضا اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد 35سال کی عمر میں فرائض امامت نبھانے لگے اور یہ سلسلہ 203ہجری 23ذیقعد کو آپ کی شہادت تک جاری رہا۔ اس وقت آپ کی عمر55سال تھی۔آپ کا مدفن مشہد مقدس ایران میں ہے اور آپ کی قبر اطہر ہر دور میں مرجع خلائق رہی ہے۔
امام علی رضاؒ کا دور امامت اس زمانے سے قریب تر تھا جسے افکار و عقائد و نظریات کے ٹکرائواور انہیں دوسری زبانوں میں منتقل کرنے بالخصوص یونان و سکندریہ کی تصنیفات و تالیفات کے عربی تراجم کا دور کہا جاتا ہے۔اس دور میں مختلف قسم کے نظریات اسلام میں پھیلنے لگے جس سے عقائد و نظریات میں تضا د اور ٹکرا ئو کی شکلیں بھی سامنے آنے لگیں۔اس دور میں اسلام دشمنوں کو جواب دینے کیلئے مسلمانوں کی واحد مرجع گاہ امام رضا کا پرنور وجود تھا۔آپ نے ان مباحث میں تثنیت (دو خدائوں)تثلیث (تین خدائوںکا عقیدہ رکھنے والے عیسائی )‘یہودیوں‘دہریوں‘بے دین کمیونسٹوںکو یوں لاجواب کردیاکہ وہ بے زبان ہو کر رہ گئے۔آج بھی ان مباحث کے مطالعہ سے امام رضا کے مقام علم و دانش کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
مامون الرشید عباسی کے دور میں ایک نصرانی عالم ’’جاثلیق‘‘تھا جو اکثر اہل اسلام کو اس بات سے لاجواب کردیتا کہ ہمارے نبی حضرت عیسی ٰ ؑ کی نبوت اور کتاب پر مسلمانوں اور عیسائیوں سب کا اتفاق ہے ۔جبکہ مسلمانوں کے نبیؐ کی ذات اختلافی ہے ۔جب اس کا مناظرہ امام رضا سے ہوا تو آپ نے اس کو یہ جواب دیا کہ مسلمانوں کا اتفاق اس عیسیٰ نبی پر ہے جنہوں نے اپنے حواریین کو حضرت محمد مصطفی ؐ کی نبوت کی بشارت دی تھی اور ہم اسی کتاب عیسی ٰ ؑ کی تصدیق کرتے ہیں جس میں نبی آخر الزمان ؐ کی بشارت درج ہے۔ اس پر جاثلیق لا جواب ہوگیا۔آپ نے فرمایا کہ اگر حضرت عیسی ٰ معاذ اللہ خدا تھے تو روزہ اور نماز کس کیلئے رکھتے تھے ؟ایک یہودی عالم ’’راس الجالوت ‘‘ جسے اپنے علم پر بڑا تکبر اور ناز تھا جب اس کا مناظرہ امام رضا سے ہوا تو آپ نے اس سے توریت کی ایک عبارت کا مطلب پوچھا جس کا جواب وہ نہ دے سکا۔جس کی فصاحتاً تشریح جب امام علی رضا نے فرمائی تو وہ مبہوت ہو کر رہ گیا۔شریعت کے پاسبان امام رضا آپ کے آبااور اولاد اطہار پر لاکھوں درود و سلام ،ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ پیغام توحید پر کبھی آنچ نہ آنے دیں گے اور دامن رسول ؐوآل رسول ؐ و پاکیزہ صحابہ کبارؓ کو مضبوطی سے تھام کردشمنان اسلام و پاکستان کی سازشوں کوناکام بناتے رہیں گے ۔